ہندوستان پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی،
اوراس کو اپنی حسن نیت، خلوص و محنت، اور حکمت و تدبر سے جنتِ نظیر
بنادیا، یہ پورا وسیع خطہٴ ارضی سونے کی چڑیا
کہلانے لگا، ساری دنیا کے اہل کمال اور اصحاب علم وفن اس ملک کی
طرف کھینچ کھینچ کر آنے لگے، انگریز بھی اس ملک کی
ترقیات اور خوشحالی سے متاثر ہوئے اور ہندوستان کی اسلامی
حکومت سے اجازت لے کر تجارت کی غرض سے اس ملک میں داخل ہوئے، اور پھر
رفتہ رفتہ انھوں نے اپنے بال وپر پھیلانے شروع کئے اور کاروبار وسیاست
میں حصہ لینے لگے، ۱۷۵۷/ میں
پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد
عملاً پورے ملک میں ان کی دھاک بیٹھ گئی، پھر رفتہ رفتہ
دہلی کی بساطِ سیاست پر وہ چھاگئے، پورے ملک کی بساط پہلے
ہی پلٹ دی تھی، اب دہلی کا سلطان بھی ان کی
مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا تھا، نقارہ کی چوٹ پر اعلان
کیاجاتا تھا:
”خلقت خداکی، ملک بادشاہ کا، حکم سرکار کمپنی
بہادر کا“
یہ سیاسی تبدیلیاں
ہندوستانیوں کے لئے یقینا خلاف توقع تھیں، جس ملک پر اب
تک انھوں نے تقریباً تین سو سال سے خاندان تیمور کو حکومت کرتے
دیکھا تھا، اور پورے ہندوستان میں اس خاندان کے زندہ و تابندہ نقوش پھیلے
ہوئے تھے، اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس خاندان نے اہم
رول ادا کیا تھا، ہر شخص اس کا ممنون کرم اور دل سے ان کی خدمت کا
قدرداں تھا، آج اس ملک پر ایک بدیسی قوم حکومت کررہی تھی،
جس کے پاس نہ کوئی ضابطہٴ اخلاق تھا اور نہ کوئی تہذیبی
نظام، اس کے پاس دماغ تو تھا مگر دل کی طاقت اور روح کی بالیدگی
سے محروم تھی، جو رنگ و نسل اور زبان کسی لحاظ سے ہندوستانی
اقوام سے میل نہیں کھاتی تھی۔
دوسری طرف انگریزوں کی آمد سے ملک جس
افراتفری کا شکار ہوگیاتھا اس کی کوئی مثال ہندوستان کی
پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی، ملی، تہذیبی،
تمدنی، اقتصادی اوراخلاقی تمام قدریں متزلزل ہوکر رہ گئیں،
۱۸۵۷/ کا عہد اس زوال پذیر دور کا نقطئہ عروج تھا۔
معاشی بدحالی
اس دور کے حالات کے ذاتی مشاہد، انگریزوں
کے وفادار، مگر ملک وملت کے غمگسار سرسید احمد مرحوم کی شہادت شاید
اس سلسلے میں سب سے زیادہ معتبر مانی جائے، وہ اپنی مشہور
کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ میں اقتصادی تبدیلیوں پر تبصرہ
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”میں نہیں بیان کرسکتا کہ ہندوستانیوں
کو کس قدر ناراضگی اور دلی رنج اور ہماری گورنمنٹ کی
بدخواہی اور نیز کتنی مصیبت اور تنگیٴ معاش
اس سبب سے ان کو تھی کہ بہت سی معافیات صدہا سال سے چلی
آتی تھیں، جو ادنی ادنی حیلہ پر ضبط ہوگئیں،
ہندوستانی خیال کرتے تھے کہ سرکار نے خود تو ہماری پرورش نہیں
کی، بلکہ جو جاگیر ہم کو اور ہمارے بزرگوں کو ان کے بادشاہوں نے دی
تھی وہ بھی گورنمنٹ نے چھین لی، پھر ہم کو اور کیا
توقع گورنمنٹ سے ہے۔“ (اسباب بغاوت ہند:۲۶)
”ابتداء عملداری سے آج تک شاید کوئی
گاؤں ایساہوگا جس میں تھوڑا بہت انتقال (ردوبدل) نہ ہوا، ابتداء میں
ان نیلاموں نے ایسی بے ترتیبی سے کثرت پکڑی
کہ تمام ملک الٹ پلٹ ہوگیا۔“ (حوالہٴ بالا:۲۸)
”اہل حرفہ کاروزگار بسبب جاری اور رائج ہونے ایشاء
تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا، یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی
سوئی بنانے والااور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں
پوچھتا تھا، پارچہ بافوں کا تار توبالکل ٹوٹ گیاتھا۔“(حوالہٴ
بالا: ۳۶)
حضرت مولانا سید محمدمیاں صاحب دیوبندی
اپنی مشہور کتاب ”علماء ہند کا شاندار ماضی“ میں رقم طراز ہیں:
”پس یہ حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷/ کا یہ خونیں حادثہ ․․․ مٹی
ہوئی جاگیر شاہی کی انگڑائی نہیں بلکہ ایک
قوم کی بڑھتی ہوئی جاگیر شاہی کے مقابلے میں
دوسری قوم کی حرکت مذبوحانہ تھی۔“#
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں
بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں
ہوتا
یہ بحث طویل ہے، اس کا ہر ایک گوشہ ایک
داستان رکھتا ہے، تنخواہوں کا تفاوت، مال گزاری کا اضافہ، وصولی مال
گزاری کیلئے جائدادوں کا نیلام، نیلام کے دل آزار توہین
آمیز طریقے، سود اور سود درسود کا رواج وغیرہ، غرض ہر ایک
باب داستانِ الم ہے“ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۲۷)
سرسیّد مرحوم نہایت جوش سے لکھتے ہیں:
”غرض کہ ملک ہر طرح سے مفلس ہوگیاتھا، ان کے
خاندان جن کو ہزاروں کا مقصدور تھا، معاش سے بھی تنگ آگئے تھے۔“
(اسباب بغاوت ہند: ۳۶)
شیخ محمد اکرام نے ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب
”آورانڈین مسلمانز“ کے حوالے سے لکھا ہے:
”اگر کوئی سیاست داں دارالعلوم میں
سنسنی پیداکرنا چاہے تو اس کے لئے کافی ہے کہ وہ بنگال کے
مسلمان خاندانوں کے سچے سچے حالات بیان کردے، یہی لوگ کسی
زمانے میں محلوں میں رہتے تھے، گھوڑے گاڑیاں نوکر چاکر موجود
تھے، اب یہ حالت ہے کہ ان کے گھروں میں جوان بیٹے، پوتے اور پوتیاں،
اور بھتیجے اور بھتیجیاں بھرے پڑے ہیں اور ان بھوکوں کے
لئے ان میں سے کسی ایک کو زندگی میں کچھ کرنے
کاموقع نہیں، وہ منہدم اور حرمت شدہ مکانوں اور خستہ برآمدوں میں قابل
رحم زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں، اور روز بروز قرض کی دلدل میں
زیادہ دھنستے جاتے ہیں، حتی کہ کوئی ہمسایہ ہندو
قرض خواہ ان پر نالش کرتا ہے، اور مکان اور زمینیں جو باقی تھیں
ان کے قبضے سے نکل جاتی ہیں، اور یہ قدیمی مسلمان
خاندان ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔“(موج کوثر:۷۵)
عدل اور انصاف کی
صورت حال:
عدل وانصاف کی صورت حال کے بارے میں سرسیّد
لکھتے ہیں:
”اور پھر اس پر اضافہ یہ ہوا کہ بادوجود ہندوستانیوں
کی مفلسی کے عدالت کی چارہ جوئی پر اسٹامپ لگادیاگیا
جو ناقابل برداشت تھا۔“ (موج کوثر:۷۵)
تعصبات، تنگ نظری اورنا انصافی کے احوال
ڈاکٹر ہنٹر کی زبانی سنئے:
”مسلمانوں کی بدقسمتی کا صحیح نقشہ
ان محکموں میں دیکھا جاسکتا ہے، جن میں ملازمتوں کی تقسیم
پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی، ۱۸۶۹/ میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینئروں
کے تین درجنوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر، امیدواروں میں
چار ہندو، دو انگریز اور مسلمان صفر، سب انجینئروں اور سپروائزروں میں
چوبیس ہندو اور ایک مسلمان اوورسیروں میں تریسٹھ
ہندو اور دو مسلمان، اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم، وغیرہ۔“
سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائی کورٹ کے دکیلوں
کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی، ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ
بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا، اس کے بعد بھی ۱۸۵۱/ تک مسلمانوں کی حالت اچھی رہی
اورمسلمان وکلاء کی تعداد ہندوؤں اورانگریزوں کی مجموعی
تعداد سے کم نہ تھی، لیکن ۱۸۵۱/ سے تبدیلی
شروع ہوئی، اب نئی طرز کے آدمی آنے شروع ہوئے اور امتحانات کا
طریقہ بھی بدل دیاگیا، ۱۸۵۲/ سے ۱۸۶۸/ تک جن
ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے ان میں ۲۳۹ہندو تھے اور ایک مسلمان۔
انھوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت
نقل کی کہ: اب یہ حالت ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں
مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی
ہے، چند دن ہوئے کمشنر صاحب نے تصریح کردی کہ یہ ملازمتیں
ہندوؤں کے سوا کسی کو نہ ملیں گی۔“ (موج کوثر:۷۶)
سماجی حیثیت
کی پامالی:
مسلمانوں کی عزت و شرافت کا حال کتنا ابتر تھا،
اس کے بارے میں سرسیّد لکھتے ہیں:
”کیا ہماری گورنمنٹ کو نہیں معلوم ہے
کہ بڑے سے بڑا ذی عزت ہندوستانی حکام سے لرزاں اور بے عزتی کے
خوف سے ترساں نہ تھااور کیا یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ایک
اشراف اہل کار صاحب کے سامنے مثل پڑھ رہا ہے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر باتیں
کررہا ہے اور صاحب کی بدمزاجی اور سخت کلامی بلکہ دشنام دہی
سے دل میں روتا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس روٹی اور کہیں
نہیں ملتی، اس نوکری سے تو گھانس کھودنی بہتر ہے۔
بلاشبہ تمام رعایا ہندوستان کی اس بات کی
شاکی ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے ان کو نہایت بے قدر اور بے وقار
کردیا ہے، ہندوستان کے اشراف آدمی کی ایک چھوٹے سے یورپین
کے سامنے ایسی بھی قدر نہیں ہے، جیسی ایک
چھوٹے یورپین کی۔“ (اسباب بغاوت ہند:۴۲)
مذہبی وتہذیبی
اقدار کو خطرہ:
سب سے بڑا خطرہ مذہبی اور ملی تشخصات اور
تہذیبی اقدار اور روایات کو تھا، سرسیّد اس وقت کے عام
احساسات کے بارے میں رقم طراز ہیں:
”کچھ شبہ نہیں کہ تمام لوگ جاہل وقابل، اعلیٰ
اورادنیٰ یقین جانتے تھے کہ ہماری گورنمنٹ کا دلی
ارادہ ہے کہ مذہب اور رسم ورواج میں مداخلت کرے اور سب کو کیا ہندو کیا
مسلمان، عیسائی مذہب اور اپنے ملک کے رسم ورواج پر
لاڈالے․․․ سب کو یقین تھا کہ ہماری گورنمنٹ
اعلانیہ جبر مذہب بدلنے پر نہیں کرے گی، بلکہ خفیہ تدبیریں
کرکے مثل نابود کردینے علم عربی وسنسکرت کے اور مفلس و محتاج کردینے
ملک کے اور لوگوں کو جوان کا مذہب ہے، اس کے مسائل سے ناواقف کرکے اوراپنے دین
و مذہب کی کتابیں اور مسائل اور وعظ کو پھیلاکر نوکریوں
کا لالچ دے کر لوگوں کو بے دین کردیں گے․․․
ہندوستان میں وعظ اور کتھا کا دستور یہ ہے کہ اپنے اپنے معبد یا
مکان پربیٹھ کر کہتے ہیں، جس کا دل چاہے اورجس کو رغبت ہو وہاں جاکر
سنے، پادری صاحبوں کا طریقہ اس کے برخلاف تھا، وہ خود غیرمذہب
کے مجمع یا تیرتھ اور میلہ میں جاکر وعظ کہتے تھے اور کوئی
شخص حکام وغیرہ کے ڈر سے مانع نہ ہوتا تھا، بعض ضلعوں میں یہ
رواج نکلا کہ پادری صاحب کے ساتھ تھانہ کا چپراسی جانے لگا، پادری
صاحب وعظ میں صرف انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکتفا نہیں
کرتے تھے، بلکہ غیرمذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی
اورہتک سے یاد کرتے تھے، جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی
تکلیف پہنچتی تھی․․․ دیہاتی
مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب یقین سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی
بنانے کو یہ مکتب جاری ہوئے ہیں․․․ جس گاؤں میں
پرگنہ وزیر یا ڈپٹی انسپکٹر پہنچا اور گنواروں میں چرچا
ہوا کہ ”کالاپادری“ آیا، عوام الناس یوں خیال کرتے تھے کہ
یہ عیسائی مکتب ہیں اور کرسٹان بنانے کو بٹھاتے ہیں۔
یہ سب خرابیاں لوگوں کے دلوں میں پیدا
ہورہی تھیں کہ دفعتاً ۱۸۵۵/ میں
پادری اے ایڈمنڈ نے دارالامارت کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری
معزز نوکروں کے پاس چٹھیاں بھیجیں، جن کا مطلب یہ تھا کہ:
اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی،
تاربرقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے سڑک سے
سب جگہ کی آمد ورفت ایک ہوگئی، مذہب بھی ایک
چاہئے،اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب
ہوجاؤ۔
میں سچ کہتا ہوں کہ ان چٹھیات کے آنے کے
بعد خوف کے مارے سب کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا، پاؤں تلے
کی مٹی نکل گئی، سب کو یقین ہوگیا کہ
ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ وقت اب آگیا اب جتنے سرکاری
نوکر ہیں اوّل ان کو کرسٹان ہونا پڑے گا اور پھر تمام رعیت کو، سب لوگ
بیشک سمجھتے تھے کہ یہ چٹھیاں گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔
(اسباب بغاوت ہند:۱۷-۲۳)
خوفناک سناٹا:
خصوصاً اس وقت جب کہ حضرت سیّد احمد شہید کی تحریک کے بعد پورے
ملک میں بالعموم موت کا سناٹا چھاچکا تھا، مشہور مبصر مولانا محمد میاں
صاحب کے بقول:
اس دور کے متعلق یہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ
لوگوں نے انگریزوں کو پہچاننا چھوڑ دیا تھا، البتہ یہ درست ہے
کہ وہ خود اپنے آپ سے غافل ہوگئے تھے، اورانھوں نے اپنے مستقبل کو پہچاننا چھوڑ دیا
تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انگریزوں کو پہچان لینے کے
باوجودوہ نہیں کیا یا نہیں کرسکے جو کرنا چاہئے تھا، خود
پرستی نے خود غرضی اور ذاتی مفاد کی ہوسناکی جو قومی
عظمت و وقار اور حیات اجتماعی کے لئے سرطان اور پلیگ سے بھی
زیادہ مہلک امراض ہیں، اور جن کی بنا پر طوائف الملوکی
عروج پاتی ہے، انہیں امراض نے ارباب اقتدار کی چشم کونابینا
اور گوش سخن نیوش کو اصم اور مدہوش بنادیا تھا۔
فانہا لاتعمی
الأبصار ولکن تعمی القلوب التي في الصدور: یہ عجیب فلسفہ ہے کہ
انسان جتنا زیادہ اپنی پرستش میں مشغول ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ
خود فراموش ہوجاتا ہے، ذاتی مفاد اور خود پرستی کے شوالے جودکن، بنگال
اوراودھ میں تعمیر کئے گئے تھے، ان کی خصوصیت یہ تھی
کہ ان کے پجاری انگریزوں کو پہچاننے، سمجھنے اور بوجھنے کے باوجود اس
پر مجبور تھے کہ سنی کو ان سنی اور دیدہ کو نادیدہ بنادیں،
کیوں کہ وہ اغراض جن کے آب وگل سے یہ شوالے تعمیرہوئے تھے ان کا
تقاضا ہی یہ تھا ورنہ یہ شوالے مسمار ہورہے تھے:
درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا
۱۸۵۷/
کے حالات:
یہ حالات تو وہ ہیں جو ایک اجنبی
حکومت کے ناجائز امتداد اور ان کے منصوبہ بند پروگراموں نے پیدا کئے تھے، ۱۸۵۷/ میں کچھ نئے حالات پیدا ہوئے، اور ان کی
وجہ سے عوامی بے چینی نے جنم لیا، امن وامان کی
صورت حال بگڑی اور پورے ملک کی فضا خراب ہوگئی، اس عہد کی
لکھی گئی اکثر کتابوں میں ان حالات و مسائل کی طرف اشارہ
کیا گیا ہے، جن کی بنا پر ۱۸۵۷/ کی مسلح تحریک آزادی رونما ہوئی،
ہم منشی ذکاء اللہ کی مشہور کتاب ”تاریخ عروج انگلش“ اور حضرت
مولانا سیدمحمد میاں صاحب کی شاہکار کتاب ”علماء ہند کا شاندار
ماضی“ سے اس وقت درپیش بعض اہم حالات پیش کرتے ہیں۔
* الحاق کا مسئلہ اس وقت کا انتہائی
حساس ترین مسئلہ تھا، اس کا مطلب یہ بیان کیاجاتا ہے کہ
کسی صوبہ کا ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے ساتھ
الحاق دراصل شہریوں کو عیسائی بنانے کی مہم کاحصہ ہے، کہ
اس طرح لالچ یاڈر کے ذریعہ لوگوں کا عیسائی بناناآسان
ہوجاتا۔
* لاخراجی زمینیں
ضبط کرلی جاتی تھیں، ان کی تشریح ملک کے مذہبی
اوقاف کے خاتمہ سے کی جاتی تھی۔
* سرکاری قانون اس طرح کا جاری
کیاگیا کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے مذہبی تشخیصات فنا
ہوجائیں۔
* جیل خانوں میں تمام قیدیوں
کے لئے ایک قسم کا کھانا دیا جانے لگا، جو ہندو مذہب کے لحاظ سے
انتہائی غلط بات تھی۔
* اسی زمانے میں خوراک
میں آمیزش کی کہانی بھی بڑی تیزی
کے ساتھ مشتہر ہوئی کہ برٹش گورنمنٹ کے حکم سے پسی ہوئی ہڈیاں،آٹے
اور نمک میں ملادی گئی ہیں، اور وہ بازار میں فروخت
ہورہی ہیں، گھی میں جانوروں کی چربی ملادی
گئی ہے، شکر کو جلی ہوئی ہڈیوں سے صاف کیاجاتا ہے،
کنوؤں میں سور اور گائے کا گوشت ڈالوادیاگیا ہے، ان افواہوں کا
نتیجہ یہ نکلا کہ بازاروں میں آٹا اوراس سے پکی ہوئی
روٹیوں کی فروخت موقوف ہوگئی، خاص طور پر میرٹھ کے علاقے
میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور
تمام فوجی چھاؤنیاں اس افواہ کی لپیٹ میں آگئیں۔
* انہی دنوں مختلف علاقوں میں
روٹیوں کی خفیہ تقسیم کا قضیہ بھی سامنے آیا،
کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز بنارس سے ہوا، گوالیار اوراندور میں بھی
اسی طرح روٹیوں کی تقسیم کی گئی، یہ
روٹیاں خاموشی کے ساتھ گاؤں گاؤں ایک جگہ سے دوسری جگہ
منتقل کی جاتی تھیں،اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ
روٹیاں کہاں سے آئی ہیں اور ان کے پیچھے کیا مقاصد
کار فرما ہیں، لوگوں نے اپنے طور پر مختلف قیاس آرائیاں کیں،
کہ یہ متحدہ بغاوت کی دعوت ہے، بیماریوں اور بلاؤں کی
تقسیم کی علامت ہے، کسی نے اس کی تشریح کی کہ
ان کی خوراک کے وسائل چھین لئے جائیں گے، ایک خیال یہ
تھا کہ ان کے اندر فتنہ انگیز خطوط چھپے رہتے تھے۔ (تاریخ عروج
عہد انگلشیہ: ۳۴۲-۳۴۵)
حضرت مولانا میاں صاحب لکھتے ہیں:
”چپاتیاں بٹنے کا واقعہ ہندوستان میں نیا
نہیں تھا، سنتھالیوں کی بغاوت سے پہلے سال کے درخت کی ٹہنیاں
گاؤں گاؤں بھیجی گئی تھیں، مرہٹوں نے جب شمالی
علاقے پر حملے کئے تواس سے پہلے روٹی پر جوار کی ٹہنی رکھ کر
بانٹی گئی تھی․․․ بعض جگہ ان پر بکری
کے گوشت کی بوٹیاں بھی رکھ دیتے تھے، کہاجاتاہے کہ ہندوؤں
کے محاورات میں چپاتیاں بٹنا اور کچے گوشت کا اس پر رکھا ہونا، قلع
قمع کردینے کچا چباڈالنے اور کلی طورپر استیصال کی علامت
مانی جاتی ہے۔“
ساورکر کا خیال یہی ہے کہ مختلف
طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے یہ صورت اختیار
کی گئی تھی، بنگال میں یہ طریقہ اختیار
کیاگیا کہ ایک خاص قاصد ہر ایک چھاؤنی میں
جاتا، سب سے بڑے ہندوستانی افسر سے ملتا اور اسے سرخ کنول کا پھول دکھاتا،
افسر وہ پھول پاس کے سپاہی کو دے دیتا، اور اسی طرح پھول ایک
ایک سپاہی کے ہاتھ میں پہنچتا یہ پھول نشان تھا صفائی،
پاکیزگی، فتح اور شادابی کا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی:
ج۴، ص:۸۱-۸۲)
* ایک بڑی شکایت
فوجیوں میں یہ پیداہوئی کہ ان فیلڈ رائفلوں
کے لئے جو کارتوس بنائے جاتے ہیں، ان میں گائے اور سور کی چربی
ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقابل برداشت بات تھی۔
جب کسی قوم سے نفرت پیدا ہوتی ہے تو
کسی بھی غلط بات پر لوگ یقین کرنے کے لئے تیار
ہوجاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں جن کا ذکر اوپر کیاگیا
وہ سب کی سب من و عن درست نہیں تھیں، ان میں کچھ افواہوں
کا عنصر بھی ضرور شامل تھا، مگر برٹش حکومت کی طرف سے ہندوستانیوں
کے خلاف مختلف محاذوں پر جو بدترین مظالم کا سلسلہ جاری تھا ان کے پیش
نظر ان افواہ آمیز خبروں کو حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا، بالخصوص
انگریزوں کے غرور آمیز لب و لہجہ اور ہندوستانیوں کے ساتھ توہین
آمیز سلوک نے لوگوں کو ایسا متنفر کریا تھا کہ وہ اس طرح کی
ہر بات کو قرین قیاس سمجھنے میں حق بجانب تھے، دوسری طرف
انگریزوں کو اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ وہ اس طرح کی شکایات
کو سننے کے لئے تیار نہ تھے، انفرادی طور پر مختلف حلقوں سے حکومت کو
اس قسم کے مظالم اور شکایات سے بارہا آگاہ کیاگیا، مگر قوت کے
جنون میں انھوں نے ان کو نظر انداز کیا۔
انگریز کے
خلاف بے چینی کا آغاز:
بالآخر وہی ہواجو اس قسم کے حالات میں ہمیشہ
ہوتا آیا ہے، عوامی بے چینی پیدا ہوئی اور
پورے ملک میں ایک زلزلہ برپا ہوگیا۔
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس بے چینی نے ۲۲/جنوری ۱۸۵۷/ کو دم دم
(کلکتہ) میں عملی شکل اختیار کی، دم دم میں مقیم
دیسی سپاہیوں نے اپنے انگریز سے کارتوس کے قصے کی
شکایت کی، مگر حکومت کی طرف سے یقین دہانی
کرائی گئی کہ کارتوسوں میں کوئی ناجائز چیزاستعمال
نہیں کی جارہی ہے، حکومت مطمئن تھی کہ بے چینی
ختم ہوگئی، مگر ایسا نہیں ہوا، کلکتہ سے ۱۶/میل دور بارک پور کے فوجیوں کے بہرام پور (بارک پور سے ۱۰۰ / میل دور) کی انیسویں رجمنٹ میں
بے چینی کا بیج بودیا، ۱۹/ فروری کی رات اس رجمنٹ نے مظاہرہ شروع کردیا، کرنل مجل
نے فوجیوں سے اس مظاہرہ کا سبب دریافت کیاتو فوجیوں نے
کہا کہ:
”سرکار ہمارا دین بگاڑ رہی ہے، کرنل نے فوجیوں
کے سامنے تقریر کی اور سمجھ لیا کہ بات ختم ہوگئی، مگر یہ
سلسلہ اندر اندر چلتا رہا، ایک دن بارک پور کی چونتیسویں
رجمنٹ کے ایک فوجی نے پریڈ کے وقت ”دین دین“ کا
نعرہ لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو فرنگیوں کے خلاف جنگ پر اکسایا،
سارجنٹ میجر موقع پر پہنچ گیا،اس فوجی نے اس پر گولی چلادی
وہ بال بال بچ گیا، بغاوت کے آثار پاکر جنرل ہرسی موقع پر پہنچ گیا،
حالات پر قابوپالیاگیا۔
”یہ دین دین“ کا نعرہ لگانے والا ایک
برہمن تھا، ”منگل پانڈے“ ۶/اپریل کو منگل پانڈے پر مقدمہ شروع ہوا، ۷/کو پھانسی کی سزا تجویز کی گئی اور ۸/کو اسے پھانسی پر لٹکادیاگیا، ۲۱/اپریل کو اس کے ایک ساتھی ایشوری پانڈے کو
پھانسی دے دی گئی، اس کا جرم یہ تھا کہ منگل پانڈے جب
فائر کی تیاری کررہا تھا اور ایشوری سے کہا گیا
تھا کہ منگل پانڈے کو گرفتار کرلے تو ایشوری نے تعمیل میں
لاپرواہی برتی تھی، جب دوبارہ اس کو حکم دیاگیا تو
کہہ دیا، منگل پانڈے تو پاگل ہوگیا ہے۔
بارک پور کی خبریں کسی قدر مبالغہ کے
ساتھ شمال ہند تک پہنچیں، اپریل ۱۸۵۷/ کے آخری ہفتہ میں میرٹھ میں
ہندوستانی سپاہیوں نے بے چینی کا مظاہرہ کیا، میرٹھ
میں انگریزی سپاہیوں کی ایک پوری رجمنٹ
موجود تھی،اور یہاں کا توپ خانہ پورے ملک میں سب سے بہتر توپ
خانہ تھا، اس لئے یہاں کے فوجی حکام مطمئن تھے، کہ یہاں کسی
کو پرمارنے کی مجال نہ ہوگی، ۲۳/اپریل کو پریڈ
کاحکم نافذ کیاگیا، ۲۴/ کو دیسی فوج نے پریڈ
کی، پریڈ کے بعد حوالدار میجر اوراس کے اردی نے ان
کارتوسوں کو چلایا جن کے متعلق خیال تھا کہ ان کے چلاتے وقت دانتوں سے
کاٹنا پڑتا ہے، پریڈ ختم ہوئی، دیسی سپاہی اپنی
بارکوں میں چلے گئے،اسی رات اردی کے خیمہ کے خیمہ
کو آگ لگادی گئی، اگلے دن دیسی سپاہیوں نے کارتوس لینے
سے انکار کردیا، مگر انگیز افسروں کی طرف سے فہمائش کے بعد
بظاہر ہر بات دب گئی مگر اندر اندر سلگتی رہی، ۶/مئی کو میرٹھ چھاؤنی میں پریڈ کرائی
گئی، ہر ایک فوج سے پندرہ پندرہ آدمی منتخب کئے گئے، کل نوے آدمی
پریڈ میں موجود تھے، کارتوسوں کی تقسیم کاحکم دیاگیا،
پانچ کے سوا سب نے انکارکردیا، جن میں انچاس ۴۹ مسلمان تھے، اور ۳۶ غیرمسلم․․․
۹/مئی کو ان باغیوں کے خلاف بلند آواز سے دس دس سال قید
بامشقت کی سزا سنائی گئی اور پھر فوراً ہی فوجی
نشان چھین لئے گئے، ان کی وردیاں پشت کی طرف سے پھاڑ دی
گئیں،اور ان کو ہتھکڑیوں میں جکڑدیاگیا، اور ان
پچاسی جوانوں کو پاپیادہ شہر کے جیل خانہ میں پہنچادیاگیا،
مظلوموں کے اس جلوس نے بغاوت کے شعلوں کو ہوادی، اور اس کی چنگاری
دور دور تک پہنچ گئی اوراس طرح دیکھتے دیکھتے ملک کے مختلف حصوں
میں بالخصوص شمالی ہندوستان میں ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے
لگے، قصہ طویل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ ہر طرف سے ایک آواز آئی
تھی کہ دہلی چلو، اور ”خاندان تیموریہ“ کے ظل ہمایونی
میں ایک منظم تحریک بنانے کا آغاز کرو، تاکہ غیرملکی
سامراج سے ملک وملت کو آزادی دلائی جاسکے، ۳۱/مئی کی تاریخ متحدہ بغاوت کے لئے مقرر کی گئی،
مگر کوئی مضبوط اور تجربہ کار سرپرست نہ ہونے کے سبب وقت سے قبل ہی
مختلف علاقوں میں الگ الگ بغاوت کی آگ بھڑکنے لگی، اس طرح جو
کام ایک وقت میں مکمل اجتماعی قوت کے ساتھ کرنے کا تھا وہ الگ
الگ اور غیرمربوط طور پر سامنے آنے لگا، اور یہی سبب بنا تحریک
آزادی کی ناکامی کا، انگریزوں کو سنبھلنے کا موقعہ ملا
اور انھوں نے اپنی پوری فوجی طاقت اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے
جھونک دی۔
دہلی میں
انقلابیوں کی آمد:
غرض ۱۰/مئی ہی سے بغاوت
کا آغاز ہوگیا، ہر طرف سے مجاہدوں نے طے کیاکہ جلد سے جلد دہلی
پہنچیں حالانکہ دہلی میں فوج کی اتنی بڑی جمعیت
تھی کہ باغیوں پر دہلی کے دروازے بند کرسکتی تھی، لیکن
میرٹھ سے اطلاع ان کو دیر سے دی گئی، اور دہلی تار
پہنچا تو دہلی کا ریزیڈنٹ سائمن فریٹررینڈ پانشہ میں
ایسا بے خود تھا کہ تار کو بغیر پڑھے جیب میں رکھ کر سوگیا،
مجاہدین کو کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور وہ بآسانی
دہلی پہنچ گئے۔
حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے دہلی میں
انقلابی افواج کی آمد کی منظر کشی اس طرح کی ہے:
”۱۱/مئی ۱۸۵۷/ مطابق ۱۶/رمضان ۱۲۷۴ھ دو شنبہ کے دن صبح کے سہانے وقت جمنا کے ایک
کنارے لال قلعہ سرخ و سپید پر جہاں، اور ان کے سنہرے کلس آفتابی کی
کرنوں سے شوخیاں کررہے تھے، اور دوسرے کنارہ پر جوش و خروش سے دلرفتہ انقلابی
فوج بے چینی سے گزرگاہ تلاش کررہی تھی۔“
اسی کنارہ پر پرمٹ کی چوکی تھی،
باغی فوج نے اس میںآ گ لگائی کلکٹر کو مارا، پھر کشیوں کے
پل پر پہنچے، محکمہ تار کا انگریز افسر جس کا نام ٹاڈ تھا، سامنے آیا،اس
کو قتل کیا، کلکتہ دروازہ جو کشتیوں کے پل کے قریب تھا، (موجودہ
ریلوے لائن سے شمال کی طرف) اس نے ان سرفروش انقلابیوں کے
استقبال میں تامل کیا، تو سامنے راج گھاٹ کے کھلے دروازے نے اپنی
طرف اشارہ کرکے داخلہ کی اجازت دے دی، پیادہ اور سواروں کی
بھیڑ قلعہ معلی کے جھروکوں کے نیچے سے گزرتی ہوئی
آگے بڑھی اور راج گھاٹ کے دروازے سے شہر میں داخل ہوئی، اب داخل
ہونے والی فوج کے داہنے جانب قلعہ تھا، اور بائیں جانب کسی قدر
فاصلہ سے دریاگنج، جہاں کچھ انگریزوں کے بنگلے تھے، فوج قلعہ کی
طرف بڑھی، پھاٹک پر سنتری موجود تھے، مگر اشاروں ہی اشاروں میں
ایسی باتیں ہوئیں کہ انقلابی فوج بلا مزاحمت قلعہ میں
داخل ہوکر بادشاہ کے حضور میں پہنچ گئی۔ (علماء ہند کا شاندار
ماضی۴/۹۱)
انقلاب کے لئے
بادشاہ کی شخصیت کا استعمال
بادشاہ کی حیثیت اس دور میں
بظاہر برٹش گورنمنٹ کے ایک وظیفہ خوار سے زیادہ نہ تھی،
اس کے پاس کوئی اختیار نہ تھا، لیکن بے معنی ہی سہی
عوام میں اس کو جو اعتماد و وقار حاصل تھا وہ شاید پورے ملک میں
کسی ایک شخص کو حاصل نہیں تھا، ہزار کمزوریوں کے باوجود
بلاتفریق مذہب وملت لوگوں کوایک نقطہ پرمتحد کرنے کے لئے مغل بادشاہ
کے نام کا سکہ جس طرح چل سکتا تھا پورے ہندوستان میں کوئی دوسرا ادارہ
یا فرد اس شان کا موجود نہیں تھا، اس لئے مجاہدین نے بجا طور پر
یہ فیصلہ کیاکہ اس تحریک کی سرپرستی کے لئے
بادشاہ سے درخواست کی جائے، بادشاہ شروع میں گھبرایا، لیکن
آخر اس کی رگوں میں خاندانِ تیمور کا خون گردش کررہاتھا، اس کے
خاندان نے صدیوں اس ملک کی خدمت کی تھی،اوریہاں کے
عوام کے ہر درد و غم کو اپنا درد و غم سمجھا تھا، بادشاہ نے مجاہدین کی
درخواست پر تھوڑے دنوں کے بعد تحریک آزادی کی سرپرستی
قبول کرلی۔
بادشاہ کی طرف سے مجاہدین کی حوصلہ
افزائی کے بعد تحریک جہاد کو کافی فروغ ملا،اور ملک کے تمام
حصوں میں یہ تحریک پوری قوت کے ساتھ پھیل گئی،
ہر علاقے کے ہندو مسلمان انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے،یوپی
اور بہار سے تلنگوں کی جماعت اس تحریک میں سب سے پیش پیش
تھی، میرٹھ، مظفرنگر، سہارنپور، پنجاب، بنگال ہر طرف اس تحریک
کے شعلے آسمان کو چھونے لگے،اور انگریزوں کے خلاف پورے ملک کی فضا ایسی
خراب ہوگئی کہ ان کے لئے بظاہر اس ملک کی سرزمین تنگ ہوگئی،
اگر اس تحریک کو مضبوط اور منظم قیادت مل جاتی اور اس عوامی
تحریکی قوت کو انگریزوں کے خلاف سلیقہ کے ساتھ استعمال کیا
جاتا تو ۱۸۵۷/ ہی میں اس ملک سے انگریزوں کا خاتمہ
ہوجاتا، لیکن افسوس ایک تو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی عمر کافی
ہوچکی تھی، جس کی وجہ سے اس کی خوداعتمادی اور قوت
فیصلہ کمزور ہوچکی تھی، دوسرے اس کے ارد گرد ایسے نااہل،
عافیت پسند اور بعض منافقین کی ایسی جماعت اکٹھی
ہوگئی تھی، جو ایسی عظیم تحریک کی قیادت
نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ چارماہ کی طاقتور جدوجہد کے بعداس تحریک
میں کمزوری کے آثار پیدا ہوئے، انگریزوں کا دفاع منظم اور
منصوبہ بند تھا، وہ تو ․․․ خرید وفروخت کے اصول پر گامزن
تھے، کتنے ہی ہندوستانی چند مفادات کے لئے انگریزوں کے وفادار
ہوگئے، اچھے اچھے لوگوں سے اچھے مستقبل کی امید میں اس تحریک
کے بجائے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
بالآخر تحریک اس وقت بکھر کر رہ گئی اور
ملک کی آزادی قریب ایک صدی کیلئے پیچھے
ہوگئی۔
جہاد کافتویٰ:
اس تحریک آزادی میں علماء اور مذہبی
قائدین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بلکہ سچ یہ ہے کہ علماء کے فتویٴ
جہاد ہی کی بناپر اس تحریک کو قوت ملی، اگر مذہبی
جوش اور جہاد کا پاک جذبہ شامل نہ ہوتا تو انگریزوں کی مضبوط حکومت سے
ٹکرلینے کی جسارت آسان بات نہ تھی، اس لئے اس تحریک کو
تمام تر غذا علماء کے طبقہ سے ملی،اور عوام اور مجاہدین نے اس کو بڑھایا
اور پھیلایا۔
سب سے پہلا فتویٰ جہاد ۱۸۵۷/ کی تحریک آزادی سے پچاس سال قبل حضرت
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے دیا تھا، جس میں کہا گیا
تھا کہ :
اس اطراف میں اور یہاں سے لے کرکلکتہ تک
نصاریٰ کا حکم جاری ہے، وہ بلاروک ٹوک جو کچھ چاہتے ہیں
کرتے ہیں، عبادت گاہوں تک مسمار کرڈالتے ہیں، مذہب کا کوئی
احترام ان کی نظر میں نہیں ہے۔ (فتاویٰ عزیزیہ،
شاندار ماضی: ۴/۱۶۴)
اسی فتوی پر عمل کرتے ہوئے آپ کے مرید
خاص اور اس تحریک کے سب سے بڑے علمبردار حضرت سید احمد شہید نے
مہاراجہ گوالیار سے امداد کی اپیل کی تھی اور شکوہ
کیاتھا کہ:
”بیگانگان بعیدالوطن ملوک زمین وزماں
گردیدہ و تاجران متاع فروش بپایہٴ سلطنت رسیدہ“ یعنی
سات سمندر پار کے اجنبی، زمین وزماں کے مالک بن گئے ہیں اور بیچنے
والے سوداگر منصب حکومت تک پہنچ گئے ہیں۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی:
۴/۱۶۵)
حضرت شاہ عبدالعزیز کا یہ فتویٰ
پورے ملک میں مشہور اور متفق علیہ تھا۔
اسی لئے انگریزوں کی غلط حکمت عملی،
توہین آمیز سلوک اور ملک کی مجموعی ابتری کے وقت جب
تحریک جہاد شروع ہوئی تو کسی حلقے سے یہ سوال نہیں
اٹھایاگیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا جائز ہے یا نہیں،
ابھی تیس سال قبل ہی تو سید احمد شہید کی تحریک
جہاد کا سلسلہ بالاکوٹ کی گھاٹیوں میں ختم ہوا تھا اورابھی
ان پہاڑوں کی چٹانوں سے ان شہدا کے خون کے نشانات مٹے بھی نہ تھے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک جہاد شروع ہوگئی، اس لئے
بالاتفاق ہر طرف اس آواز کو قبولیت حاصل ہوئی، اور ملک کے ہر حصے میں
جہاد کے علمبردار کھڑے ہوگئے، البتہ انگریزوں کے دوسرے بہت سے جنگی
حربوں کی طرح جھوٹے فتوؤں کا حربہ بھی استعمال کیا اور عوام میں
اس کے بالمقابل ایک دوسرے جھوٹے فتوے کا پروپیگنڈہ کیاگیا
کہ:
”انگریز حاکمِ وقت ہے، مسلمان اس کی پناہ میں
ہیں (مستامن ہیں)پس اطاعت واجب ہے اور غدر حرام“ (شاندار ماضی: ۱۶۵)
حالانکہ یہ بالکل غلط بات تھی، انگریز
نہ جائز حکمراں تھے اورنہ مسلمانوں نے کبھی ان کی حکومت کو بجان و دل
قبول کیا تھا، وہ غاصب اور ظالم تھے، اور طاقت کی بدولت مسلمانوں کی
حکومت چھین لی تھی، غاصبانہ حکومت کو جائز حکومت کبھی نہیں
قرار دیا جاسکتا تھا،اور نہ ایسی حکومت کی حفاظت کے لئے
کوشش کرنا درست تھا، مگر انگریزوں کا پروپیگنڈہ اتنا طاقتور تھا اور
ان کے ذرائع ابلاغ اتنے وسیع اور مضبوط تھے کہ بہت سے مسلمان اور ہندوستانی
لوگ اس دام میں آگئے۔
دوسری طرف انگریزوں کی جنگی
طاقت کا رعب لوگوں پر اتنا زیادہ تھا اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں
کے وسائل حرب بہت محدود تھے، کہ جہاد ایک طرح سے احمقانہ خودکشی معلوم
پڑتی تھی۔
تیسری طرف مسلمانوں میں قیادت
کا ایسا زبردست خلا تھا، اور جو تھا اس میں اتنا انتشار تھا کہ شرائط
جہاد کی تکمیل کا مسئلہ کھڑاہوگیا تھا، کہ بغیر کسی
امیر کے جہاد درست ہے یا نہیں؟
دہلی میں
علماء کا اجتماع:
یہی وہ حالات تھے جن کی بنا پر ضرورت
پڑی کہ دوبارہ علماء کا اجتماع بلایا جائے، اور اس مسئلہ کو پھر سے
منقح کرلیا جائے کہ فی زمانہ جہاد کی شرعی اہمیت
کیا ہے؟ مسلمانوں کے لئے انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے اٹھ کھڑا ہونا
درست ہے یا نہیں؟ اور شرائط جہاد کی تکمیل ہورہی ہے
یا نہیں؟
یہ نیک کام اللہ پاک نے جنرل بخت خاں کی
آمد کے ذریعہ کرایا، جو سلطان پور لکھنوٴ کا رہنے والا تھا،اور
اودھ کے شاہی خاندان سے رشتہ داری رکھتا تھا، اس کے پیرورمشد مولانا
سرفراز علی خاں حضرت سید احمد شہید سے وابستہ تھے، بادشاہ سے جب
اس کی ملاقات ہوئی اور بادشاہ کو اس کی صلاحیت کا اندازہ
ہوا، تو بادشاہ نے اس کو تمام افواج کا سپہ سالارِ اعظم بنادیا، اوراس طرح
حسن انتظام اور حسن عقیدہ کا جو خلا لال قلعہ میں پایا جاتا
تھا، پُرہوگیا، اب سوال صرف یہ رہ گیا کہ کیا ہمارے پاس
دشمن سے مقابلہ کی طاقت ہے یا نہیں؟ بہت سے علماء کو اس باب میں
شبہ تھا، دہلی میں مولانا محبوب علی صاحب اور تھانہ بھون میں
شیخ محمد تھانوی وغیرہ کئی علماء اسی
قسم کے تذبذب میں مبتلا تھے، جامع مسجد میں علماء کا ایک بڑا
اجتماع بلایاگیا اور استفتا پیش کیاگیا، جس کی
عبارت یہ تھی:
فتویٴ
جہاد کی تجدید:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین؟ اس
امر میں کہ اب جوانگریز دلی پر چڑھ آئے اوراہل اسلام کی
جان ومال کا ارادہ رکھتے ہیں، اس صورت میں اب شہر والوں پر جہاد فرض
ہے یا نہیں؟ اور اگر فرض ہے تو وہ فرض عین ہے یا نہیں؟
اور لوگ جو اور شہروں اور بستیوں والے ہیں ان کو بھی جہاد چاہئے
یا نہیں؟ بیان کرو، اللہ تم کو جزائے خیر دے۔
جواب: درصورت مرقومہ فرض عین ہے، اور اوپر تمام
اس شہر کے لوگوں کے اوراستطاعت ضرور ہے، اس کی فرضیت کے واسطے چنانچہ
اب اس شہر والوں کو طاقت مقابلہ اور لڑائی کی ہے بسبب کثرت اجتماع
افواج کے اور مہیا اور موجود ہونے آلات حرب کے تو فرض عین ہونے میں
کیا شک رہا اور اطراف واحوال کے لوگوں پر جو دورہیں باوجود خبر کے فرض
کفایہ ہیں، ہاں اگر اس شہر کے لوگ باہر ہوجائیں مقابلے سے یا
سستی کریں اور مقابلہ نہ کریں تو اس صورت میں ان پر بھی
فرض ہوجاویگا اور اسی طرح اور اسی ترتیب سے سارے اہل زمین
پر شرقاً اور غرباً فرض عین ہوگا،اور جو عدو اور بستیوں پر ہجوم اور
قتل وغارت کا ارادہ کریں تو اس بستی والوں پر بھی فرض عین
ہوجائے گا بشرط ان کی طاقت کے۔ (العبد
المجیب احقر،نور جمال عفی عنہ)
اس فتویٰ پر درج ذیل علماء نے دستخط
کئے اور مہریں لگائیں:
(۱) سید محمد نذیرحسین (۲) رحمت اللہ (۳)
مفتی محمد صدرالدین (۴) مفتی
اکرام الدین معروف سید رحمت علی (۵) محمد ضیاء
الدین (۶) عبدالقادر (۷)
فقیر احمد سعید احمدی (۸) محمد میر خاں (پامیر محمد پامیرخان محمد) (۹) محمد عبدالکریم (۱۰) فقیر سکندر علی (۱۱) محمد کریم اللہ (۱۲) مولوی عبدالغنی (۱۳) خادم العلماء محمد عبدالغنی
(۱۴) فریدالدین (۱۵) محمد سرفراز علی (۱۶) سید محبوب علی
جعفری (۱۷) ابواحمد محمد حامی الدین (۱۸) سید احمد علی (۱۹) الٰہی بخش (۲۰) محمد مصطفی خاں ولد حیدر
شاہ نقشبندی (۲۱)
محمد انصار علی (۲۲) مولوی سعید الدین (۲۳) حفیظ اللہ خان (۲۴) محمد نورالحق عفی عنہ (۲۵) سراج العلماء ضیاء الفقہاء مفتی عدالت عالیہ
محمد رحمت علی خاں (۲۶) واللہ الغنی وانتم
الفقراء (۲۷) حیدر علی (۲۸) سیف الرحمن (۲۹) سید عبدالحمید عفی
اللہ عنہ (۳۰) یاسید حافظ (۳۲) محمد امداد علی عفی عنہ (۳۳) خادم شریف رسول الیقین قاضی القضاة محمد علی
حسین۔ اس فتویٰ کا عکس جو سوتنتر دہلی اور نوائے
آزادی میں شائع ہوا ہے۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۱۷۸-۱۷۹)
سوال وجواب کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علماء کے
سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ انگریزوں سے جہاد جائز ہے یا
نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اسلام نے مشروعیت جہاد کی
جو شرطیں مقرر کی ہیں وہ پوری ہورہی ہیں یا
نہیں؟
غلط بیانی:
بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ
سرسیّد احمد خان اور منشی ذکاء اللہ نے اس فتویٰ اوراس کے
پس منظر کی غلط ترجمانی کی ہے، علماء کے موقف کو مسخ کرنے کی
کوشش کی ہے اور تحریک جہاد اور مجاہدین کی خلافِ واقعہ
تصویر پیش کی ہے، سرسیّد صاحب کی مشہور کتاب ”اسباب
بغاوت ہند“ سے دو اقتباسات پیش ہیں:
”اوریہ جوہر ضلع میں پاجی اور جاہلوں
کی طرف سے جہاد کا نام ہوا، اگر ہم اس کو جہاد ہی فرض کریں تو
بھی اس کی سازش اصلاح قبل دسویں مئی ۱۸۵۷/ مطلق نہ تھی، غور کرنا چاہئے کہ اس زمانہ میں
جن لوگوں نے جھنڈا جہاد کا بلند کیا، ایسے خراب اور بدرویہ اور
بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور
ناچ و رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا، بھلا یہ کیوں
کر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے،اس ہنگامے میں کوئی
بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوگی۔
دہلی میں جو فتویٰ جہاد کا
چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے، مگر
میں نے تحقیق سے سنا ہے اوراس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں،
کہ وہ محض بے اصل ہے، میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دہلی
میں گئی، تو کسی نے جہاد کے باب میں فتویٰ
چاہا، سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہوسکتا، اگرچہ اس سے
پہلے فتویٰ کی میں نے نقل نہیں دیکھی
ہے، مگر جب کہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے، تو میں اس نقل کو نہیں
کہہ سکتا کہ وہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے، مگر جب بریلی کی فوج
دہلی میں پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا، جو مشہور ہے
اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے، بلاشبہ اصل نہیں، چھاپنے والے اس
فتویٰ کے نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی
بدذات آدمی تھا، جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور
چھاپ کر اس کو رونق دی تھی، بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی
چھاپ دی تھی جو قبل غدر مرچکا تھا، مگر مشہور ہے کہ چند آدمیوں
نے فوج باغی بریلی اوراس کے مفسد ہمراہیوں کے جبراور ظلم
سے مہریں بھی کی تھیں۔“ (اسباب بغاوت ہند:۷-۱۰)
منشی ذکاؤ اللہ لکھتے ہیں:
”جب تک دہلی میں بخت خاں نہیں آیا،
جہاد کے فتویٰ کا چرچا شہر میں بہت کم تھا، مساجد میں
ممبروں پر جہاد کا وعظ کمتر ہوتاتھا، دلی کے مولوی اوراکثر مسلمان
خاندان تیموریہ کو ایسا خولہ خبطہ جانتے تھے کہ وہ ناممکن
سمجھتے تھے کہ اس خاندان کی بادشاہی ہندوستان میں ہو مگر اس کے
ساتھ جاہل مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ انگریزی
سلطنت کے بدن میں یہ ایسا پھوڑا نکلاکہ وہ جانبر نہیں ہوگی۔“
یہ کام لچے شہدے مسلمانوں کاتھا کہ وہ جہاد جہاد
پکارتے پھرتے تھے، مگر جب بخت خاں، جس کا نام اہل شہر نے کم بخت خاں، رکھا تھا، دلی
میں آیا تو اس نے یہ فتویٰ لکھایا کہ
مسلمانوں پر جہاداس لئے فرض ہے کہ اگر کافروں کی فتح ہوگی تو وہ ان کے
بیوی بچوں کو قتل کرڈالیں گے، اس نے جامع مسجد میں مولویوں
کو جمع کرکے جہاد کے فتوے پر دستخط ومہریں ان کی کرالیں اورمفتی
صدرالدین نے بھی ان کے جبر سے اپنی جعلی مہر کردی لیکن
مولوی مجبوب علی اور خواجہ ضیاء الدین نے فتویٰ
پر مہریں نہیں کیں،اور بے باکانہ کہہ دیاتھاکہ شرائط جہاد
موافق مذہب اہل اسلام موجود نہیں۔
اس فتویٰ کا اثر یہ تھا کہ جاہل
مسلمانوں کا جوش مذہبی زیادہ ہوگیا، جن مولویوں نے فتویٰ
پر مہریں کی تھیں، وہ کبھی پہاڑی پر انگریزوں
سے لڑنے نہیں گئے، مولانا نذیر حسین جو وہابیوں کے مقتدا
اور پیشوا تھے، ان کے گھر میں ایک میم چھپی بیٹھی
تھی اس فتویٰ پر کچھ مہریں اصلی اور کچھ جعلی
تھیں، ایک مولوی کی مہر تھی جو غدر سے پہلے قبر میں
سوچکا تھا۔(تاریخ عروج عہد انگلشیہ: ۶۷۵)
سرسید مرحوم اور مفتی ذکاء اللہ دونوں کے
درج بالا بیانات غلط اور خلاف واقعہ ہیں، اصل واقعہ وہی ہے جو
اوپر مذکور ہوا، حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے ان دونوں حضرات کے بیانات
کا احتساب کرکے ان کو غلط ثابت کیاہے۔ (ملاحظہ ہو علماء ہند کا شاندار
ماضی: ۴/۱۶۴-۱۷۵)
”ایک طرف علماء کے فتویٰ سے مسلمانوں
میں جذبہٴ حریت پیدا ہوا، تو دوسری طرف پنڈتوں نے
بھی ہندوؤں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا،
منشی ذکاء اللہ خان کا بیان ہے:
ہندوؤں کے پنڈت، مسلمانوں کے مولویوں کی
نسبت انگریزوں سے عداوت کرنے میں کچھ کم نہیں تھے، کئی
دفعہ انھوں نے پتروں کو دیکھ بھال کر لڑنے کی شبھ مہورت نکال کر تلنگوں
کو بتلائے اوران کو یقین دلایاکہ ان میں اگر لڑنے جاؤگے
تو فتح پاؤگے، ایک عجیب تماشا چاندی چوک اور بازاروں میں یہ
دیکھنے میں آتا تھا کہ پنڈتوں کے ہاتھ میں پوتھیاں ہیں
اور وہ ہندوؤں کو دھرم شاستروں کے احکام سنارہے ہیں کہ انگریز ملکشوں
سے لڑنا چاہئے، جب لڑائیوں میں تلنگوں کی لاشیں چارپائیوں
پر ان کے سامنے آئیں تو وہ ہندوؤں کو اپدیش دیتے کہ ان سرگ باشیوں
کی طرح سرگ میں چلے جاؤ، جن کے لئے نہ ارتھی کی ضرورت تھی
نہ کرم کریا کی۔ (تاریخ عروج عہد انگلشیہ: ۶۷۶)
مگراس جنگ میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے
کم تھی، جب کہ ملک میں ان کی تعداد زیادہ تھی، مگر یہ
جنگ مسلمان لڑرہے تھے، ملک ان کے ہاتھوں سے چھینا گیا تھا، اس لئے
قدرتی طور پر ان میں زیادہ طبقہ تھا، ہندو تو پہلے بھی
عام شہری تھے اوراب بھی تھے، ان کا کچھ زیادہ نقصان نہیں
تھا۔
اس موقع پر مسلم شعراء نے بھی جہاد کی
اسپرٹ پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا، اس دور میں
حضرت مولانا لیاقت علی صاحب کی یہ چھوٹی سی
نظم کا فی مشہور ہوئی تھی:
واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طبع بلاد
اہل اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد
مال و اولاد اور گھر کی محبت چھوڑو
راہِ مولیٰ میں خوشی ہو کے شتابی
دوڑو
گر پھرے جیتے تو گھر بار میں پھر آؤ گے
اور گئے مارے تو جنت کو چلے جاؤ گے
(تاریخ بغاوت ہند: ۳۰۰/ بحوالہ شاندار ماضی: ۴/۱۹۷)
غرض تمام اسلامی جنگوں کی طرح مسلمانوں نے
اور بالخصوص علماء نے اس جنگ میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ لیا
ہے۔
اب ان چند علماء کا تذکرہ کیاجارہا ہے، جو ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں صف اوّل میں
نظر آتے ہیں، یوں گمنام مجاہدین اور شہدا کی تعداد ہزاروں
اور لاکھوں سے متجاوز ہوگی، جن کا علم رب العالمین کے سوا دنیا
میں کسی کو نہیں ہے، اورجن کو شایان شان اجر مالک یوم
الدین کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ہے۔
حضرت مولانا مفتی
صدرالدین خاں کشمیری آزردہؔ
والد ماجد کا نام مولانا لطف اللہ کشمیری
ہے، حدیث کی اجازت شاہ محمداشحاق دہلوی سے ملی، علوم عقلیہ
مولوی فضل امام خیرآبادی سے پڑھے، تمام علوم وفنون میں یگانہٴ
روزگار تھے، ایام جنگ میںآ پ دہلی میں صدرالصدور کے عہدہ
پر فائز تھے، آپ ان مخصوص علماء وزعماء میں ہیں جنھوں نے جامع مسجد میں
ہونے والے فقہی اجتماع کے فتویٰٴ جہاد پر دستخط کئے تھے،
آپ کے مکان پر بادشاہ کے علاوہ تمام اکابر واعیان اور علماء و شعراء حاضری
دیتے تھے، ہر وقت دربار کا سماں رہتا تھا، فصاحت وبلاغت اور اخلاق واحسان میں
بے نظیر تھے، ۱۸۵۷/
کی جنگ میںآ پ کی آنکھ سخت زخمی
ہوگئی، روزگار جاتارہا، املاک وجائداد جوتیس سال کی ملازمت سے
حاصل کی تھی ضبط کرلی گئی، کئی ماہ جیل کی
سلاخوں کے پیچھے گزارے، رہائی ملی، تو لاہور چلے گئے، پھر دہلی
میں اپنی جائداد کی واپسی کی کوشش کی تو
جائداد غیرمنقولہ واپس مل سکی، بستی حضرت نظام الدین میں
کچھ دن رہے، پھر اپنی حویلی میں خلوت نشیں
ہوگئے۔
شروع میں مفتی صاحب کے انگریزی
حکومت سے بڑے اچھے تعلقات تھے، اسی لئے برے اونچے مناصب پر فائز رہے، لیکن
جب یہ تحریک جہاد شروع ہوئی تواس کے بھی بنیادی
رکن قرار پائے۔
انقلاب ۵۷/ کے بعد مفتی صاحب کا ایک
اہم کارنامہ قابل ذکر ہے، کہ انقلاب کے موقعہ پر دہلی کی جامع مسجد پر
انگریزوں نے قبضہ کرلیا تھا، دوسال تک ان کا قبضہ برقرار رہا، اور یہ
عظیم الشان مسجد سجدوں سے محروم رہی، مفتی صاحب نے شاہی
خاندان کے ایک فرد مسند الٰہی بخش اور دیگر علماء دین
شہر کے ساتھ مسجد کی واگزاشت کی کوشش کی، چنانچہ گورنمنٹ نے یہ
مسجد مسلمانوں کے حوالہ کی، اوراکابر شہر کی ایک مختصر سی
انتظامیہ کمیٹی بنادی گئی، اس کمیٹی میں
مفتی صاحب اور مولانا اکرام اللہ خان بھی شامل تھے۔ (غدر کے چند
علماء، از مفتی انتظام اللہ شہابی:۸۳)
آخر عمر میں ایک دوسال فالج میں
مبتلا رہے، اکیاسی(۸۱) سال کی عمر میں یوم
پنجشنبہ ۲۴/ربیع الاوّل ۱۲۸۵ھ میں انتقال فرمایا۔ (حدائق الحنفیہ:۴۸۲)
نواب مصطفی
خان شیفتہ
والد کانام نوب مرتضیٰ خان بہادر، دہلی
میں ۱۸۰۶/ میں پیداہوئے، عظیم الدولہ، اور
”سرفراز ملک“ آپ کے خطابات تھے، ”شیفتہ“ تخلص کرتے تھے، بقول سرسید
”علمی قابلیت میں بدرمنیر، اور ماہ تاباں، تقوی،
طہارت اور خداپرستی میں زاہد شب زندہ دار تھے“ دہلی کے کامل فن
اساتذہ سے عربی اور فارسی کی تکمیل کی، مولانا حاجی
نور محمد صاحب دہلوی سے حدیث وقرأت کی کتابیں پڑھیں۔
شعر و شاعری میں مومن خاں مومنؔ کے شاگرد ہیں۔
مجددی نقشبندی سلسلہ میں بیعت
تھے، بڑے پابند شرع اور منکرات سے بچنے والے، آپ کے زمانہ میں نواب اور رئیس
تو کیا مشائخ کے یہاں بھی سماع اور قوالی کا رواج تھا،
مگر آپ کی احتیاط کا عالم یہ تھاکہ ترنم کے ساتھ اشعار سننا بھی
پسند نہیں کرتے تھے، خود آپ کا قول ہے:
ڈر ہے کہ نہ ہو شوق مزامیر شیفتہؔ
ورنہ کبھی سماعِ مجرد سنا کروں
۱۸۵۷/ کے انقلاب
میں آپ پیش پیش تھے، اس سلسلے میں نواب ولی داد خاں
رئیس مالاگڈھ سے وابستہ تھے، بادشاہ سے خط وکتابت کا کام آپ ہی کے
سپرد تھا، تحریک ناکام ہوئی تو آپ گرفتار کرلئے گئے، مگر رعایت یہ
ہوئی کہ سات سال قید کی سزا ہوئی، پھرنواب صدیق حسن
خاں والی بھوپال کی جان توڑ کوششوں کے نتیجے میں قید
سے رہائی ملی، لیکن وظائف سرکاری بند اور ذاتی
جائداد کا نصف حصہ بھی ضبط کرلیاگیا۔
ذیابیطس کا عارضہ تھا، آخر میں سرطان
میں بھی مبتلا ہوگئے تھے، بڑی تکلیفیں جھیلنے
کے بعد ترسٹھ سال کی عمر میں ۱۸۶۹/ میں
انتقال فرمایا، اور درگاہ حضرت نظام الدین میں مدفون ہوئے۔
(شاندار ماضی: ۴/۲۳۲-۲۳۵)
مولانا امام بخش
صہبائی شہید
والد کانام مولانا محمد بخش تھانیسری تھا،
سلسلہٴ نسب والد کی طرف سے حضرت فاروق اعظم سے اور والدہ کی طرف
سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے، دلی کالج میں
فارسی کے مدرس تھے، خطاطی میں یدطولیٰ رکھتے
تھے، ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حرف سونے چاندی کے عوض خریدے جاتے تھے،
وہ بھکاری فقیروں کو ایک حرف لکھ کر دے دیتے تھے جو ایک
روپیہ کے نوٹ کی طرح ہر جگہ ایک روپیہ کا بکتا تھا۔
دلی کے کوچہٴ چیلان میں قیام تھا، اسی محلہ میں
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
کا گھرانا بھی آباد تھا، سرسید خان کا گھر بھی اسی محلہ میں
تھا،مولانا مملوک علی نانوتوی نے بھی اسی محلہ میں
مکان لیا تھا، مولانا قاسم نانوتوی کا قیام دہلی بھی
اسی محلہ میں تھا، بعد کے دور میں مولانا مفتی کفایت
اللہ اورسحبان الہند مولانا احمدسعید دہلوی بھی اسی محلہ
میں رہتے تھے، غرض یہ ایک تاریخی محلہ تھا، اسی
لئے دہلی میں سب سے زیادہ مصیبت اسی محلہ کے باشیوں
پر آئی، پورے محلہ کے تمام مردوں کو قتل کردیاگیا یا
گرفتار کرکے حاکم کے حکم سے دریا کے کنارے ان کو گولیوں سے بھون دیاگیا،
مولانا صہبائی انہی گرفتار شدہ شہیدوں میں ہیں، جن
کا خون دریا کی ریت میں جذب ہوگیا، مولانا کے
خاندان کے اکیس افراد اس دن شہید کئے گئے، مولانا صہبائی کی
شہادت کوئی معمولی بات نہیں تھی، جب یہ خبر آپ کے
ہم عصر مفتی صدرالدین آزردہ کو ملی تو بے ساختہ ان کی
زبان سے یہ شعر نکلا
کیوں کر آزردہؔ نکل جائے نہ سودائی ہو
قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو
دہلی کے اتنے علماء اور اہل کمال شہید ہوئے
کہ علامہ حالی نے اس کو ”دہلی مرحوم“ کا نام دے دیاتھا، حالی
نے ایک پورا مرثیہ ہی دہلی کا لکھ ڈالا، چنداشعار پیش
ہیں:
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوس نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز
چپہ چپہ پہ ہیں یہاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز
غالبؔ و شیفتہؔ نیرؔ و
آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز
مومنؔ و علویؔ و صہباؔئی
وممنونؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
بزم ماتم تو نہیں ، بزم سخن ہے حالیؔ
ہاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز
اور یہ معاملہ صرف دہلی تک ہی محدود
نہ تھا، پورا ملک اس جذبہ آزادی سے سرشار تھا، اور ہر علاقہ کے مسلمان اہل
علم اور اصحاب کمال بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے تھے۔
مولانا رحمت
اللّٰہ کیرانوی
والد ماجد کا نام مولانا نجیب اللہ ہے، والد صاحب
میرٹھ میں میرمنشی کا کام کرتے تھے، اجداد کا اصل وطن پانی
پت تھا، ۱۲۳۳ھ مطابق ۱۸۱۸/ میں پیدا
ہوئے، ابتدائی تعلیم کیرانہ میں حاصل کی، پھر دہلی
گئے، لال قلعہ کے پاس مولانا محمد حیات کے مدرسہ میں داخل ہوئے، اور تعلیم
کی تکمیل کی، ۲۴/رمضان ۱۳۰۸ھ مطابق ۲/مئی ۱۸۹۱/ کو مدینہ
منورہ میں وفات پائی،اور وہیں مدفون ہوئے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے بارے میں منشی
ذکاء اللہ نے لکھا ہے:
سب سے اول مولوی رحمت اللہ کیرانہ سے اس
ٹوہ میں آئے کہ دہلی میں جہاد کی کیا صورت ہے؟ وہ
بڑے عالم فاضل تھے، عیسائی مذہب کے رد میں صاحب تصنیف
تھے، وہ قلعہ کے پاس مولوی محمد حیات کی مسجد میں اترے،
اس دانش مند مولوی کے نزدیک دہلی میں جہاد کی کوئی
صورت نہ تھی، بلکہ ایک ہنگامہ فساد برپاتھا، وہ پھر کر اپنے وطن چلاگیا۔
(تاریخ عہد عروج انگلشیہ)
مگر یہ منشی جی کی غلط بیانی
ہے، گرشتہ صفحات میں علماء کے جس فتویٰ کا ہم نے تذکرہ کیاہے،
اس پر ایک دستخط محمد رحمت اللہ کے بھی ہیں، زیادہ قرین
قیاس یہ ہے کہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہی ہیں،
اس لئے کہ اس دور میں اتنے بڑے علمی اجتماع میںآ پ سے زیادہ
بہتر نمائندگی کرنے والا اور شہرت رکھنے والا اس نام کا اور کوئی عالم
نہیں ملتا۔
مولانا محمد میاں صاحب نے شاندار ماضی میں
مولانا کیرانوی کے پڑپوتے مولانا عارف الاسلام کے
مضمون کا ذکر کیا ہے، جس میں مولانا کی شرکت جہاد کی پوری
تفصیل ذکر کی گئی ہے، خلاصہٴ مضمون یہ ہے کہ مولانا
نے اپنی جدوجہد کا مرکز کیرانہ ہی کو بنایا اور وہیں
سے جہادی کام کا آغاز کیا، دراصل ہندوستان کے مختلف علاقوں میں
پھیلی ہوئی یہ ساری سرگرمیاں دہلی سے
مربوط تھیں اور بادشاہ تیمور کی سرپرستی اور مولانا
سرفراز علی اور جنرل بخت کی زیرنگرانی انجام پارہی
تھیں، مگر چوں کہ اس وقت کے قانون کے مطابق یہ بغاوت تھی، اس
لئے یہ تمام سرگرمیاں باہم مربوط ہونے کے باوجود منتشر دکھائی
پڑتی ہیں، ان میں کچھ وسائل کی کمی کا بھی
دخل تھا، سرکار کی ناتجربہ کاری اورناپختہ کاری کا بھی
اور کچھ دشمنوں کی عیاری وچالاکی کا بھی اور غالباً
اسی وجہ سے اتنی بڑی عظیم الشان تحریک چندماہ کے
اندر ہی دم توڑ بیٹھی، تحریک کی ناکامی کے
بعد جب گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مولانا کے نام بھی وارنٹ جاری
ہوا، مولانا بچتے بچاتے پنج سیٹھ کے مکھیاکے یہاں روپوش ہوئے،
حکومت کو اطلاع ہوئی تو پوری فوج ادھر چل پڑی، مولانا مکھیا
کے مشورہ پر کھرپا، لے کر گاؤں سے باہر کھیت میں گھاس کاٹنے بیٹھ
گئے، فوج مولانا کے پاس سے گزری پورے گاؤں کا محاصرہ کرلیاگیا،
مکھیا گرفتار ہوا، مگر آپ دستیاب نہ ہوسکے، آپ کو مفرور باغی
قرار دے کر گرفتاری پر ایک ہزار روپے کے انعام کا اعلان ہوا۔
مولانا نے اپنا نام مصلح الدین بدل کر پاپیادہ
دہلی کے لئے روانہ ہوئے، پھر دہلی سے جے پور اور جودھ پور کے مہیب
ریگستان کو پیدل عبور کرتے ہوئے بندرگاہ سورت پہنچے، اس زمانہ میں
سورت بندرگاہ سے بھی جہاز کا سفر آسان نہ تھا، بادبانی جہاز سال بھر میں
صرف ایک مرتبہ ہوا کی موافقت کے زمانے میں سورت سے روانہ ہوتا
اور اسی طرح جدہ سے آتا تھا، مولانا کسی طرح جدہ اور پھر مکہ مکرمہ
پہنچ گئے، آپ اورآپ کے خاندان کی ساری جائداد جو لاکھوں کی تھی،
ضبط کرکے چند کوڑیوں میں نیلام کردی گئی، مولانا نے
مکہ مکرمہ میں مدرسہ صولتیہ کی بنیادڈالی، جو آپ کی
نہایت عظیم الشان یادگار ہے، فرحم اللہ رحمة واسعة۔
ڈاکٹر وزیر
خاں
آپ کے خاندانی حالات کا پتہ نہیں، صرف اس
قدر معلوم ہے کہ وہ بہار کے رہنے والے تھے، یورپ کا سفر کیاتھا، انگریزی
کے علاوہ یونانی اور عربی زبانوں میں بھی کافی
درک رکھتے تھے، یورپ سے واپس آکر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار
کرلی تھی، تاج محل کے قریب محلہ کاغذیان میںآ پ کی
سکونت تھی، یہیں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے
تعارف ہوااور ذہنی وفکری ہم آہنگی نے دونوں عظیم ہستیوں
کو انگریزوں کے مدمقابل لاکھڑا کیا، رجب ۱۲۷۲ھ مطابق مارچ ۱۸۵۶/ کا مناظرہ
کافی مشہور ہے، پورے ملک میں اس تاریخی مناظرہ کی
دھوم مچی تھی، پادری فنڈر جو یورپ سے آیاتھا، کی
بدترین شکست اسی مناظرہ میں ہوئی، جس کے بعد فنڈر کے لئے
ہندوستان میں منہ دکھانا مشکل ہوگیا، وہ یہا ں سے فرار ہوکر
قسطنطنیہ چلاگیا، فنڈر کو شکست دینے والے مولانا رحمت اللہ کیرانوی،اور
آپ کے رفیق خاص یہی ڈاکٹر وزیر خان ہیں، اور یہ
عجیب اتفاق ہے کہ جب فنڈر نے ترکی میں مسلمانوں کو چیلنج
دیا، تو سلطان ترکی نے مکہ معظمہ سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جن شخصیتوں
کاانتخاب کیا وہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ڈاکٹر وزیر
علی خان ہی تھے، جو اس سے قبل ہجرت کرکے مکہ معظمہ پہنچ چکے
تھے۔
ڈاکر وزیر خان ۱۸۵۷/ کے انقلاب میں دہلی میں تھے، بہادر
شاہ ظفر اور جنرل بخت خاں کی طرف سے آپ کو جنگی خدمات بھی سپرد
کی گئی تھی، جنرل بخت خاں نے آپ کو لارڈ آف آگرہ بھی بنادیا
تھا، پھر جنرل بخت خاں کے ساتھ آپ لکھنوٴ تشریف لے گئے، پھر جب ہر طرف
ناکامی ہوئی تو چھپتے چھپاتے آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے،اور یہاں
ڈاکٹری شروع کردی، جس میں آپ کی بڑی شہرت ہوئی،
اوریہی آپ کی حفاظت کا ذریعہ بھی بنی، جس کی
تفصیل مولانا محمد میاں صاحب نے شاندار ماضی میں اس طرح بیان
کی ہے۔
کسی بدوی شیخ کی بیوی
بیمارہوئی، مرض لاعلاج تھا، اطباء مایوس ہوچکے تھے، بدوی
رئیس نے سب سے مایوس ہوکر ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا، ڈاکٹر صاحب
کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے مریضہ کو شفا بخشی، یہ
بدوی شیخ ڈاکٹر صاحب کا بہت ممنون ہوا، کچھ عرصہ بعد حکومتِ برطانیہ
نے حکومت ترکیہ سے گفتگو کرکے ڈاکٹر صاحب کی حوالگی کی
پروانہ حاصل کرلیا، جب بدوی سردار کو علم ہوا تو اس نے شریف مکہ
کے پاس پیغام پہنچایا کہ ڈاکٹر وزیرخان میری امان میں
ہیں، جب تک میرے قبیلے کے بیس ہزار (۲۰۰۰۰)
افراد کٹ نہ جائیں گے، ڈاکٹر وزیر صاحب کو
حوالہ نہیں کیا جاسکتا، شریف مکہ نے یہ رپورٹ حکومت ترکیہ
کو پیش کردی، باب عالی (مرکزی حکومتِ ترکیہ) نے یہ
پروانہ منسوخ کردیا۔ (ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی
علماء، علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۳۱۳)
حضرت حاجی
امداد اللّٰہ ”مہاجر مکی“
آپ کی ولادت تھانہ بھون میں ۲۳/صفر ۱۲۳۳ھ مطابق ۳/جنوری ۱۸۱۸/
میں ہوئی، تاریخ وفات ۱۳/جمادی الاول ۱۳۱۷ھ ہے، والدین نے آپ کانام ”امدادحسین“ رکھا
تھا، ۲۷/سال کی عمر میں جب حج بیت اللہ کو تشریف
لے گئے، تو حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب نے آپ کا نام بدل کر ”امداداللہ“ رکھ
دیا۔
حاجی امداداللہ کسی ایک فرد کا نہیں
بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے، ۱۸۵۷/ کی
اس تحریک میںآ پ کا زبردست حصہ ہے، جس کی مختصر تفصیل یہ
ہے کہ انگریزوں کے مظالم کا سلسلہ تو پورے ملک میں برسوں سے جاری
تھا، اور ہرجگہ انگریزوں کے خلاف ہرچھوٹی بڑی تحریک کو
کچلا جارہا تھا، اسی دوران تھانہ بھون کے رئیس قاضی عنایت
علی کے بھائی کا قصہ پیش آگیا، وہ ہاتھی خریدنے
کے لئے سہارنپور تشریف لے گئے، کسی نے مخبری کردی اور
مسٹر سپینکی (Spankie) مجسٹریٹ سہارنپور نے ان کو
گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکوادیا، قصہ طویل ہے تفصیل
کتابوں میں مذکور ہے۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۲۶۹-۲۷۰)
اس واقعہ سے پورے علاقے میں انگریزوں سے
نفرت کی آگ جوپہلے سے دبی دبی سی تھی اچانک بھڑک
اٹھی دہلی، میرٹھ اور دیگر علاقوں میں تحریک
جہاد شروع ہوچکی تھی، اس مقامی واقعہ نے اس علاقہ میں بھی
اس کے اسباب پیدا کردئیے، حضرت حاجی امداد اللہ کی تحریک
جہاد بھی اسی کا ایک حصہ ہے، تھانہ بھون میں ایک
اجتماع بلایاگیا، جس میں حضرت حاجی صاحب کے علاوہ حضرت
مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت
مولانا رحمت اللہ کیرانوی، حضرت مولانا حافظ ضامن شہید، حضرت
مولانا منیر نانوتوی، حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی،اور
بہت سے علماء شریک ہوئے، مسئلہ زیر بحث یہ نہیں تھا کہ
انگریزوں کے خلاف جہاد جائز ہے یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ
درپیش تھا کہ موجودہ حالات میں موجودہ وسائل کے ساتھ جہاد کیاجاسکتا
ہے یا نہیں؟ اسلام کے مطابق شرائط جہاد موجود ہیں یا نہیں؟
اس سلسلے میں معلوم حد تک صرف حضرت مولانا محبوب علی اور حضرت مولانا
شیخ محمد تھانوی کو تذبذب تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی
اور حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی کامکالمہ دیوبند سے متعلق اکثر
کتابوں میں مذکور ہے، حضرت شیخ محمد تھانوی جو حضرت حاجی
امداد اللہ کے پیر بھائی تھے، ان کو بنیادی طورپر دو
اعتراض تھے۔
ایک تو یہ کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں،
دوسرے ہمارے پاس امارت نہیں ہے، جس کی نگرانی میں یہ
کام کیاجائے، حضرت مولانا نانوتوی نے دونوں باتوں کا جواب دیا،
کہ کیا ہمارے پاس بدرسے بھی کم وسائل ہیں؟ اور جہاں تک امارت کا
مسئلہ ہے تو حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت کرلی
جائے، اور ایک علاقائی امارت قائم کرلی جائے،اس پر حضرت مولانا
شیخ محمد تھانوی خاموش ہوگئے اور ایک امارت قائم ہوگئی،
امارت قائم ہونے کے بعد پہلے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو حالات
کے جائزہ کے لئے بھیجا گیا، دہلی مرکز سے رابطہ کرنے کے لئے
نواب شبیر علی مراد آبادی کو جو بادشاہ ظفر کے مقربین اور
بے تکلف مصاحبین میں تھے، دہلی بھیجا گیا، ظاہر ہے
کہ دہلی خبر کرنے کا مقصد اس کے سوا کیاہوسکتا ہے کہ اس مقامی
امارت کو مرکز کے اتحاد سے جوڑا جائے، اس سلسلے میں حلقہٴ دیوبند
کی مختلف کتابوں میں مختلف توجیہات کی گئی ہیں،
لیکن ان حالات میں یہ بالکل واضح سی بات ہے کہ دہلی
میں بادشاہ کی سرپرستی میں جو مرکزی امارت قائم ہوئی
تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ اس مقامی امارت کو اس مرکزی
امارت سے جوڑا جائے، تاکہ شرائط جہاد کی تکمیل ہوسکے، اور متحدہ قوت
بنائی جائے، اورغالباً اسی چیز کی پیروی بعد
کے ادوار میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے
کی تھی،انھوں نے بھی اپنی تحریک آزادی کے لئے
افغانستان اور ترکی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، جس کا
قصہ بہت مشہور ہے۔
مقامی امارت کو دہلی کی مرکزی
امارت سے مربوط کرنے کے بعد تھانہ بھون سے کارروائی کا آغاز کیاگیا،
حضرت حاجی صاحب امیر، حضرت مولانا قاسم نانوتوی سپہ سالارِ
افواج، حضرت مولانا گنگوہی کو قاضی اور دیگرحضرات کو بعض دیگر
ذمہ داریاں دی گئیں،اور پھر انگریزوں کے خلاف باقاعدہ مہم
شروع ہوئی، سہارن پور سے ایک انگریزی پلٹن شاملی
آرہی تھی، جس میں توپخانہ اور جنگ کا بھاری سازوسامان
تھا، حضرت مولانا گنگوہی کی قیادت میں ایک فوجی
دستہ روانہ ہوا، اور انگریزی پلٹن پر کامیاب چھاپہ ماری کی
گئی، اور سارا ساز وسامان ضبط کرلیاگیا، پھر شاملی کا
قلعہ فتح کیاگیا، لیکن اس کے بعد دہلی کی ناکامی
کے بعد یہاں کا محاذ بھی ٹوٹ گیا، سارا قافلہٴ جہاد منتشر
ہوگیا،اور مجاہدین کے خلاف پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی، حضرت مولانا
گنگوہی گرفتار ہوئے، اور چھ ماہ جیل کی تکلیف اٹھائی،
باقی حضرات روپوش رہے، حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی تو امیر
جماعت ہی تھے، آپ تھانہ بھون سے نکل کر مختلف مقامات پر روپوش رہے، کچھ دنوں
پنجلاشہ ضلع انبالہ کے رئیس راؤ عبداللہ خان کے یہاں مقیم
رہے،اس کے اصطبل کے ایک چھوٹے سے کمرہ میں قیام تھا، انگریزوں
کو خبر ہوگئی، تلاشی ہوئی، مگر حضرت کی کرامت کہ آپ ان
دشمنوں کی نگاہ سے محفوظ رہے، قصہ بہت مشہور ہے، کچھ دنوں گڑھی پختہ
ضلع سہارنپور میں روپوش رہے، یہاں بھی کرامت کا واقعہ پیش
آیا، آخر ۱۲۷۶ھ میں ہجرت فرمائی، اور سندھ کے راستے سے
کراچی پہنچے اور بحری جہاز سے مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہوگئے، اور پھر
وہاں سے آپ نے وہ عظیم الشان کام انجام دئیے جن کے فیوض آج تک
جاری ہیں۔
حجة الاسلام
مولانا محمد قاسم نانوتوی
حضرت نانوتوی اس انقلاب میں سب سے پیش
پیش تھے، آپ کی شجاعت وبصیرت کے بہت سے واقعات مشہور ہیں،
تحریک کی ناکامی کے بعد آپ کے نام بھی وارنٹ جاری
ہوا، دوست احباب نے آپ کو روپوش ہوجانے کا مشورہ دیااور ایک علیحدہ
جگہ آپ کو پہنچادیا، مگر تین روز کے بعد آپ باہر چلے آئے اور فرمایا
کہ غارثور میں حضور … صرف تین دن ہی روپوش رہے تھے، اس سے سنت
پوری ہوگئی، اس کے بعد آپ کبھی روپوش نہیں رہے، دوستوں نے
لاکھ کہا، مگر آپ آزاد رہے،مگر خدائی حفاظت اورآپ کی حکمت عملی
کی آپ دشمنوں کی دسترس سے ہمیشہ محفوظ رہے۔
ایک بار چھتہ کی مسجد میں تھے کہ پولیس
پہنچ گئی، آپ نے جوتیاں اٹھائیں اور باہر نکلنے لگے، کپتان پولیس
نے خود آپ سے پوچھا، مولانا محمد قاسم کہاں ہیں؟ آپ ایک قدم اورآگے
بڑھے اور پیچھے کی طرف اشارہ کرکے فرمایاابھی یہاں
تھے، اوریہ کہہ کر مسجد شاہ عزالدین کی طرف چلے گئے، پولیس
اندر گئی تو وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ (سوانح قاسمی:
۲/۱۷۷)
حضرت خفیہ طور پر اپنے شیخ حضرت حاجی
صاحب سے بھی ملتے رہے، حضرت نانوتوی اپنے شیخ کی طرح ہجرت
کرنا چاہتے تھے مگر حضرت حاجی صاحب نے آپ کو روک دیا، نہیں، آپ
کو ہندوستان ہی میں رہنا ہے، پھر اللہ نے آپ کے ذریعہ دارالعلوم
دیوبند قائم کرایا، جس سے ہندوستان میں اشاعت علم دین کا
بے مثال کام انجام پایا۔
حضرت مولانا رشید
احمد گنگوہی
حضرت گنگوہی بھی اس انقلاب کے اہم ترین
رکن تھے، تحریک کی ناکامی کے بعد داروگیر کا بازار گرم
ہوا، ملکہٴ وکٹوریہ کی طرف سے معافی کے اعلان عام کے ۹ ماہ بعد جبکہ حضرت گنگوہی اپنے تحفظ کی ہرممکن تدبیر
فرمارہے تھے ایک گاؤں منہیاران جہاں آپ روپوش تھے، گرفتار کرلئے گئے،
چھ ماہ جیل کی تکلیف اٹھائی، جمادی الثانیہ ۱۲۷۶ھ مطابق ۱۸۶۰/ میں
آپ کی رہائی عمل میں آئی، رہائی کے بعد آپ نے حدیث
وفقہ، اور تصوف وروحانیت کا وہ درس شروع فرمایا جس کے فیوض سے ایک
عالم نے استفادہ کیا۔
مولانا محمد مظہر
نانوتوی
والد ماجد کانام حافظ لطف علی تھا، والد ماجد سے
قرآن شریف حفظ کیا، مولانا مملوک علی، مولانا احمد علی
صاحب محدث سہارنپوری اورحضرت شاہ عبدالغنی صاحب مجددی، وغیرہ
سے علوم متداولہ کی تکمیل کی، بخاری شریف حضرت شاہ
مولانا محمد اسحاق سے پڑھی، جہاد شاملی میں شریک رہے،
پاؤں میں گولی لگی، علاج معالجہ کے بعد بھی پاؤں پر اس کا
نشان باقی رہا، تحریک کی ناکامی کے بعد آپ مسلسل روپوش
رہے، جب خطرات سے آزاد ہوئے تو منظر عام پر آئے اور سہارنپور میں مدرسہ
مظاہرعلوم کا آغاز فرمایا، جو آپ کی زبردست علمی یادگار
ہے۔ حضرت گنگوہی سے پانچ سال بڑے تھے۔
۲۴/ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ مطابق ۱۸۸۶/ کی
شب میں آٹھ بجے آپ نے انتقال فرمایا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی:
۴/۳۰۴-۳۰۵)
مولانا محمد منیرنانوتوی
مولانا مظہر نانوتوی کے چھوٹے بھائی ہیں،
شاملی کی جنگ میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی
حفاظت کی نگرانی بھی آپ کے ذمہ تھی، تحریک کی
ناکامی کے بعد جب داروگیر کا بادل چھٹا تو آپ نے ۱۸۶۱/ میں بریلی کالج کی ملازمت اختیار
کرلی اور وہاں مطیع صدیقی کے کام میں اپنے بھائی
مولانا محمد احسن نانوتوی کے شریک ومعاون ہوگئے، آپ دارالعلوم دیوبند
کے دو سال مہتمم بھی رہے۔
حافظ ضامن شہید
آپ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے پیربھائی اوراس
انقلاب کے خاص رکن تھے، شاملی کی جنگ میں انگریزوں کی
گولیوں سے آپ کی شہادت ہوئی، آپ کی شہادت کے حادثہ کے
ساتھ ہی دہلی، میرٹھ،اور مختلف علاقوں سے بری خبریں
آنے لگیں۔
حضرت مولانا محمد میاں صاحب تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت حافظ ضامن کا شہید ہونا تھا کہ معاملہ
بالکل ٹھنڈا پڑگیا، ان کی شہادت سے پہلے روزانہ خبر آتی تھی
کہ آج فلا ں مقام انگریزوں سے چھین لیاگیا، آج فلاں مقام
پر ہندوستانیوں کا قبضہ ہوا، مگر حافظ صاحب کی شہادت کے بعد پہلے پہل
خبر آئی کہ دہلی پرانگریزوں کا قبضہ ہوگیا، اور یہی
حال ہرجگہ کی خبروں کا تھا، اس سے پہلے گورے فوجی چھپتے پھرتے تھے، ایک
ایک سپاہی گوروں کی جماعت کو بھگائے پھرتا تھا، مگر بعد میں
معاملہ برعکس ہوگیا، پہلے کسی کھیت میں گورا چھپا ہوا تھا
تو کاشتکار عورت نے اسے کھرپے سے قتل کرڈالا، مگر بعد میں معاملات الٹ
ہوگئے۔
حضرت شیخ الہند فرماتے تھے کہ ایسا معلوم
ہوتا تھا کہ یہ تمام معاملہ جوش و خروش، جنگ وجدال کا حضرت حافظ محمد ضامن کی شہادت کے لئے کیاگیا
تھا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی: ۴/۲۸۰-۲۸۱)
مولانا عبدالجلیل
شہید
آپ کے والد ماجد مولانا ریاض الدین (شارح
قصیدہ بردہ) حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب دہلوی کے شاگرد رشید
جامع مسجد علی گڑھ کے امام تھے، نہایت متقی اورپرہیزگار
اور عوام میں مرکز عقیدت تھے، انگریز آپ سے ملنے کے آرزومند
رہتے تھے، مگر آپ کو انگریزوں سے ایسی نفرت تھی کہ بہت کم
ملاقات کی اجازت دیتے تھے۔
انقلاب کے دوران علی گڑھ کی زمامِ قیادت
آپ ہی کے ہاتھ میں رہی، وہیں سے آپ نے انگریزوں کے
خلاف جنگیں لڑیں، اور علی گڑھ سے انگریزوں کو ماربھگایا،
آخر مڈراک کی سڑک پر انگریزوں سے لڑتے ہوئے آپ شہید ہوگئے، اس
دن آپ کے بہتر ساتھی شہید ہوئے، یہ تمام شہداء کو جامع مسجد لایاگیااور
شمالی دروازہ کے قریب دفن کیاگیا، مولانا عبدالجلیل
کی شہادت کے بعدانگریزوں نے علی گڑھ پر قبضہ کرلیا، اور
قتل عام شروع کردیا، مولانا کے بچوں کو وہاں سے نکال کر علی گڑھ سے تین
میل دور ایک گاؤں رسول پور میں چھپادیاگیا، ادھر
انگریزوں نے مولانا شہید کے مکان اور جائداد کو مسمار
کرڈالا، بعد میں مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد اسماعیل، حضرت
مولانا محمد قاسم نانوتوی کے شاگرد ہوئے،اور بڑے علماء میں شمار کئے
گئے۔ (شاندار ماضی:۴/۳۱۷)
مولانا فیض
احمد بدایونی
آپ کے والد ماجد کا نام حکیم غلام احمد تھا، بدایوں
میں ۱۲۲۳ھ مطابق ۱۸۰۸/ میں
پیدا ہوئے، تین سال کے تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا، والدہ
نے تربیت کا کام انجام دیا، غضب کی ذکاوت و ذہانت کے حامل تھے،
صرف چودہ سال کی عمر میں تمام علوم منقول ومعقول حاصل کرلئے تھے، تھوڑی
عمرہی میں زبردست شہرت حاصل کرلی تھی، آپ اپنے نانا حضرت
مولانا شاہ عبدالحمید صاحب سے بیعت ہوئے، اور مسند رشد وہدایت
تک پہنچے، پادری فنڈرسے مناظرہ میں مولانا رحمت اللہ اور ڈاکٹر وزیرخان
کے ساتھ آپ بھی شریک تھے۔
۱۸۵۷/ کے انقلاب
میں آپ نے اہم رول ادا کیا، جنرل بخت خاں نے آپ کو خصوصی ذمہ
داری دی، تحریک کی ناکامی کے بعد جب جنرل بخت خاں
دہلی سے لکھنوٴ روانہ ہوا تو مولانا بھی آپ کے ساتھ تھے، لکھنوٴ
میں مولانا شاہ احمد اللہ صاحب دادشجاعت دے رہے تھے، آپ ان کے ساتھ شامل ہوگئے،
بدایوں اور ککرالہ کے معرکوں میں بھی آپ نے اپنی بہادری
کا سکہ جمایا، مولانا شاہ احمداللہ صاحب کی شہادت کے بعد ایسے
روپوش ہوئے کہ آپ کے ماموں مولانا فضل رسول نے آپ کی تلاش میں قسطنطنیہ
تک سفر کیا مگر کہیں سراغ نہ لگ سکا۔
منشی
ذوالفقار الدین
والد کانام وہاب الدین ہے، بدایوں کے مقوی
خاندان سے ہیں، صاحب حیثیت تھے، انگریزوں سے خاص تعلق
تھا، مگر جب اس انقلاب کی ہواچلی تو آپ نے بھرپور حصہ لیا، بعد
میں جب آپ گرفتار ہوئے تو جس انگریز کے یہاں آپ منشی کا
کام کرتے تھے اس نے بہت اصرار کیا کہ منشی جی اپنے جرم سے انکار
کردیں، تو رہا کردئیے جائیں گے، مگر مولانا نے جان دے دی
مگر جھوٹ نہیں بولے۔ (شاندار ماضی: ۴/۳۶۳)
مولوی رضی
الدین
بدایوں کے صدیقی شیخ تھے،
انقلاب کے بعد گرفتار ہوئے، جج نے کہا کہ اگر شرکت کا انکار کردو چھوڑ دیاجائے
گا، اور کئی دن تک اس نے یہی کہہ کر مہلت دی، مگر آپ نے
جان دے دی لیکن آخر وقت تک صداقت پر قائم رہے۔
مولوی تفضّل
حسین
قاضی ٹولہ بدایوں کے تحصیلدار تھے،
جرم بغاوت میں آپ کو گولی مارکر شہید کردیاگیا۔
حکیم تفضّل
حسین
مولوی ٹولہ بدایوں کے رہنے والے تھے، مقدمہ
چلا اور رہائی پائی۔
چودھری
تفضّل حسین
محلہ چودھری سرائے بدایوں کے رہنے والے
تھے، والد کا نام چودھری محمد عظیم فاروقی ہے، انگریزی
تسلط کے بعد عام معافی تک روپوش رہے، گھر جائداد سب ضبط کرلی گئی۔
۱۸۹۲/ میں انتقال کیا۔
شیخ مسیح
الدین
والد کا نام شیخ غلام محمد ہے، ہنگامہٴ
انقلاب سے قبل مختاری کرتے تھے، الزام بغاوت میں گرفتار ہوئے، ساٹھ بید
لگے، آخری ضرب بید پر اللہ اللہ کہا، اس پر ظالم نے دس بید اور
لگوائے، بے ہوش ہوگئے، ۱۹۲۲/
میں انتقال کیا۔ (شاندارماضی: ۴/۳۶۵)
جنرل نیاز
محمد خان
نہایت دلیر اور بہادر تھے، انقلاب ختم ہونے
کے بعد بھاگ کر مکہ معظمہ چلے گئے تھے، پھر کسی ضرورت سے بمبئی آئے
اور گرفتار کرلئے گئے، بدایوں میں مقدمہ چلا،اور سزائے موت کا فیصلہ
ہوا، پھر آپ کی اپیل پر اس سزا کو حبس دوام بعبور دریائے شور میں
بدل دیاگیا۔
بدرالاسلام عباسی
بدایوں کے رہنے والے تھے، ۱۸۵۷/ کے انقلاب میں آپ نے اپنی شاعری سے
لوگوں میں جذبہٴ جہاد جگایا، آپ نے ایک نظم لکھی تھی،
جس کا ایک مصرعہ تھا:
ع سرکمپنی
کا کٹ کے بِکا پاؤ آنہ میں
اس جرم میں سزائے موت دی گئی۔
نواب مجوخان
اصل نام مجدالدین عرف مجوخان والد کا نام محمد
الدین احمد خان تھا، آپ کے جدامجد قاضی عصمت اللہ فاروقی عہد
عالمگیری میں امیر تھے، اور مختلف صوبوں کے حاکم رہے،
نواب صاحب مراد آباد کے عمائدین میں تھے، آپ کے گھر پر اصحاب علم وفن
کا اجتماع رہتا تھا، مرزا غالب مراد آباد گئے تو انہی کے یہاں قیام
رہا، انقلاب کے بعد آپ کو گرفتار کیاگیا اور موت کی سزا تجویز
ہوئی، کہاجاتا ہے کہ ان کو چولے کی بھٹی میں جلادیاگیا،
ساری جائداد ضبط کرلی گئی۔
چودھری
عبدالقادر عرب
نواب مجو خاں کے دوست تھے، آپ کی کُشتی کی
شہرت دور دورتک تھی، انقلاب کے بعد آپ کو بھی موت کی سزا دی
گئی۔
مولانا کفایت
علی صاحب کافی شہید
مرادآباد کے خانوادئہ سادات کے رکن تھے، بڑے عالم،
فاضل، طبیب اور قادر الکلام شاعر تھے، حضرت شاہ ابوسعید مجددی
سے علم حدیث کی تکمیل کی، حدیث اور سیرت پاک
سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ۱۸۵۷/ کی جنگ مرادآباد میں شروع ہوئی، تو آپ
صف اول کے مجاہدین میں تھے، انقلاب کے دوران مرادآباد میں نواب
مجوخاں کی حکومت قائم ہوئی تو آپ کو صدرالشریعہ کا عہدہ دیاگیاتھا،
آپ نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد مرتب کیااور اس کی
نقلیں مختلف مقامات پر بھجوائیں، بلکہ بعض مقامات پر آپ خود تشریف
لے گئے، آنولہ ضلع بریلی میں خاص اسی مقصد کے لئے ایک
ہفتہ سے زیادہ قیام فرمایا، جنرل بخت خان اور مولانا سرفراز علی
صاحب سے آپ کی خصوصی مشاورت رہتی تھی، ۲۵/اپریل ۱۸۵۸/ کو مراد
آباد پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ ہوا، مولانا کافی کچھ دنوں محفوظ
رہے، ۳۰/اپریل ۱۸۵۸/ مطابق ۱۶/رمضان المبارک ۱۲۷۴ھ کو مولانا
گرفتار ہوئے، مولانا پر مختلف الزامات عائد کرکے ضابطہ کی کارروائی کی
گئی، پھانسی کا حکم صادرکیاگیا، مولانا کافی کو جب
پھانسی کے لئے لیجایا گیا تو آپ کی زبان پر ایک
تازہ نظم تھی، جو بڑے ترنم سے بلند آواز سے پڑھ رہے تھے، نظم یہ ہے:
کوئی گل باقی رہے گا نے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حسن رہ جائے گا
ہم صغیر و باغ میں ہے کوئی دم کا
چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے
گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہان جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام ونشانِ پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحب لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
مولانا کافی کو مراد آباد کے پاس مجمع عام کے
سامنے پھانسی دی گئی اور وہیں تدفین عمل میں
آئی۔ (شاندار ماضی: ۴/۳۷۷-۳۳۹)
مولانا وہاج الدین
مرادآبادی
والد ماجد کا نام مولوی جمیل الدین
ہے، نہایت فیاض، مہمان نواز، زاہد، شب زندہ دار، اور بااثر رئیس
تھے، عربی،فارسی، اردو، انگریزی چاروں زبانوں میں
مہارت تھی، آپ کے یہاں روزانہ شہر کے شرفاء اور اہل علم جمع ہوا کرتے
تھے، علماء میں قابل ذکر نام یہ ہیں۔
مولانا کافی صاحب، مولانا سرفراز علی صاحب،
سیداکبر علی صاحب، سید گلزار علی صاحب، اور مولوی
وزیر علی صاحب وغیرہ۔
۱۸۵۷/ کی
جنگ میںآ پ کا کردار نمایاں رہا، مراد آباد کے علاقہ میں آپ نے
قائدانہ خدمات انجام دی، انقلاب کے خاتمہ پر جب داروگیر کا سلسلہ شروع
ہوا، تو مولانا وہاج الدین کی قیام گاہ کا ایک ان کے اپنے
دسترحوان کے نمک خوار کی مخبری پر محاصرہ کیاگیا، مولانا
تنہا تھے، مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے، مولانا کی ساری جائیداد
ضبط کرلی گئی۔ (شاندار ماضی: ۴/۳۸۳-۳۸۵)
شاہ غلام بہولن سیوہاروی
مراد آباد کے مشہور قادری بزرگ ہیں، آپ کا
مولد و مسکن سیوہارہ ضلع بجنور تھا، آپ کا لنگرخانہ سفرئہ ہرخاص و عام تھا،
آپ سب کی مدد کرتے تھے، اس انقلاب میں آپ کی خدمات بھی بڑی
اہم ہیں، ایک نمک خوار معتقد کی مخبری پر آپ کو گرفتار کیاگیا،
اور جزیرئہ انڈمان بھیج دیاگیا،اور وہیں ۲/ربیع الاول ۱۲۷۶ھ کو انتقال فرمایا۔
(انوارالعارفین: ۵۴۷، مطبوعہ مطبع صدیقی دہلی، شاندار ماضی:
۴/۴۰۴-۴۰۶)
مولانا احمد
اللّٰہ شاہ شہید
مولانا سید احمدمیاں نے آپ کا خوبصورت
تذکرہ اس انداز میں شروع کیا ہے:
”عزم وہمت، حمیت ملی اور غیرت وطن کا
وہ شعلہٴ جوالہ، جو ”چنیاپٹن“ سے اٹھا، دہلی اور آگرہ میں
چمکا، سرزمین اودھ میں چٹخا، روہیل کھنڈ میں شعلہ افشاں
ہوا، پھر اسی کے ایک گوشہ میں محوسکون ہوگیا، اس کو ۱۸۵۷/ کی جان مضطرب کہا جائے یا شہدا، ۱۸۵۷/ کا سرتاج، دونوں درست۔ (شاندار ماضی: ۴/۴۱۰)
مولانا احمداللہ شاہ کے والد کا نام سیدمحمد علی
نواب چنیاپٹن ہے، جو سلطان ٹیپو کے مصاحب تھے، اصل نام احمد علی
ہے، مگر احمداللہ شاہ سے شہرت ہوئی تعلیم و تربیت کے بعد روحانی
طور پر حضرت قربان علی شاہ سے بیعت ہوئے، پھر گوالیار میں
ایک بزرگ محراب شاہ قلندر سے مرید ہوئے، جنھوں نے جہاد کی شرط
لگائی، جس کو انھوں نے بسروچشم قبول کیا، روحانی مدارج طے کرنے
کے بعد سیاسی طور پر ملک کے حالات کی طرف توجہ کی، اور
دہلی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا،
دہلی کے بعد آگرہ، اور آگرہ کے بعد کانپور اور پھر لکھنوٴ آپ کی
سرگرمیوں کا مرکز رہے، آپ کو بڑی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی،انگریز
آپ کی مخالفانہ سرگرمیوں سے واقف تھے، مگر عوامی مقبولیت
کی بنا پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے، بالآخر آپ کے مصاحبین کو رشوت
و بدعنوانی اور دیگر مقدمات لگاکر پراگندہ کردیاگیا، پھر
ایک مقابلے میں آپ کو زخمی حالات میں جیل بھیج
دیاگیا، مئی ۱۸۵۷/ کی
تحریک شروع ہوئی، تو آپ فیض آباد جیل میں تھے،
مولانا سکندر شاہ فیض آباد میں مجاہدین کے قائد تھے، انھوں نے فیض
آباد جیل پر دھاوا بول کر مولانا احمد اللہ شاہ کو رہا کرایا، لیکن
خود گرفتار ہوگئے، مولانا احمد اللہ شاہ نے وہاں سے نکل کر پورے ملک میںآ گ
لگادی، اور فدایان وطن کو ساتھ لے کر لکھنوٴ کا رخ کیا،
لکھنوٴ میں سخت معرکے ہوئے، یہاں کی ناکامی کے بعد
شاہ جہاں پور آئے، پھر وہاں سے قصبہ محمدی میں اپنی حکومت قائم
کی،اور اپنا سکہ جاری کیا، کابینہ کے ارکان درج ذیل
تھے:
جنرل بخت خاں وزیر
جنگ
مولانا سرفراز علی قاضی القضاة
نانا راؤ پیشوا (دیوان
وزیر مالی)
مولانا لیاقت علی صاحب الٰہ آبادی،
ڈاکٹر وزیر خاں صاحب اکبر آبادی،مولانا فیض اللہ صاحب بدایونی،
شاہزادہ فیروز شاہ، ارکان حکومت، لیکن ابھی حکومت پوری
طرح جمنے بھی نہ پائی تھی کہ انگریزوں نے قصبہ محمدی
پر حملہ کردیا، شاہ صاحب وہاں سے نکلے اور پوائیں کے راجہ کا رخ کیا،
مگر اس نے غداری کی اور گفتگو کے نام پر اپنی گڈھی، میں
بلواکر گولیوں کی بوچھار کرادی، شہید ہوئے، صبح آپ کا
سرکاٹ کر انگریز کلکٹر شاہ جہاں پور کو بھیج دیا، جو عرصہ تک
کوتوالی پر لٹکا رہا، نعش کو آگ میں جھونک دیاگیا، سرکار
برطانیہ کی طرف سے راجہ کو اس کے انعام میں پچاس ہزار روپے نقد
اور خلعت فاخرہ کاانعام ملا، مولانا احمد اللہ شاہ کی شہادت ۵/جون ۱۸۵۸/ مطابق ۱۳/ذیقعدہ ۱۲۷۵ھ کو ہوئی، آپ کے ساتھ بہت سے علماء اوراصحاب کمال
نے جام شہادت نوش کیا، یا انڈمان بھیجے گئے، ان کے نام یہ
ہیں:
امیر احمد، شاہ آفاق، قطب شہید، رستم علی،
اسماعیل خان، غلام محمد خان، کفایت اللہ تلہری، فرقان علی،
محمد شاہ خان سعد اللہ خان شہید،نوراحمد، احمد یار خاں تحصیلدار،
نواب غلام قادر خان بٹول، عبدالرؤف خان، مولوی شیخ اعتقاد علی بیگ
صاحب، مولوی امام بخش، سید باقر علی، مولوی نورالحسن
صاحب، سیدمراتب علی، خواجہ تراب علی، سید حسن علی،
رحمت علی، مفتی ریاض الدین، مولوی غلام جیلانی،
غلام مرتضی، شیخ محمد شفیع، مولوی عبدالصمد، مولوی
منصب علی، مولوی محمدعظیم الدین حسن، رسول بخش، باسط علی
صاحب، مومن علی صاحب، مولانا محمد قاسم صاحب داناپوری، معین الدین
صاحب، مولوی کریم اللہ خان صاحب، صدرالصدور وقاضی محمدکاظم
صاحب، تاج الدین صاحب، طفیل احمد صاحب خیرآبادی، مولانا
غلام امام شہید، مفتی عبدالوہاب گویا مئوی، ڈاکٹر وزیر
خان، مولوی فیض احمد بدایونی، مفتی انعام الدین
وغیرہ۔ (شاندار ماضی: ۴/۴۱۰-۴۳۴)
مولانا مفتی
عنایت احمدکاکوری
والد ماجد کا نام مفتی محمد بخش ہے، آپ کا خاندان
بغداد سے دیوہ آکر آباد ہوا، پھر سسرالی نسبت سے آپ کے دادا کاکوری
چلے آئے، مفتی صاحب ۹/شوال ۱۲۲۸ھ کو دیوہ میں
پیداہوئے، ابتدائی تعلیم کاکوری میں حاصل کی،
پھر رام پور گئے اور علوم کی تکمیل کی، دہلی جاکر شاہ اسحاق
صاحب محدث دہلوی سے کتب حدیث سبقاً سبقاً
پڑھیں اور سند حدیث حاصل کی، مفتی صاحب بلند مناصب پر
فائز رہے، مفتی، قاضی، صدرامین، صدراعلیٰ کے مناصب
حاصل ہوئے اور ان کے ساتھ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا
سلسلہ بھی جاری رہا، بے شمار شاگرد ہوئے، بہت سی کتابیں
لکھیں۔
۱۸۵۷/ کی
جنگ شروع ہوئی، تو روہیل کھنڈ کے علاقے میں آپ نے بھرپور حصہ لیا،
تحریک کے خاتمہ پر مفتی صاحب پر مقدمہ چلا اور عبور دریائے شور
کی سزا تجویز ہوئی، جزیرئہ انڈمان میں بھی
تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا، ایک انگریز کی
فرمائش پرکتاب تقویم البلدان کا ترجمہ کیا، جو دو برس میں مکمل
ہوا، اور وہی سبب رہائی بنا، رہا ہونے کے بعد کانپور آکر مدرسہ فیض
عام قائم کیا، مفتی صاحب اپنے مصارف سے بہت سے طلبہ کی کفالت
کرتے تھے، مفتی صاحب حج کے لئے جارہے تھے کہ جدہ کے قریب جہاز پہاڑ سے
ٹکراکر ڈوب گیا، مفتی صاحب بحالتِ نماز احرام باندھے ہوئے غریق
وشہیدہوئے، یہ واقعہ ۷/شوال ۱۲۷۹ھ کا ہے، صرف ۵۲/برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔
علامہ فضل حق خیرآبادی
والد ماجد کا نام مولانا فضل امام ہے، ۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۷/ میں
خیرآباد میں پیداہوئے، آپ کے والد مولانا فضل امام دہلی میں
صدرالصدور تھے، آپ ہی کے زیرسایہ علوم کی تکمیل کی،
حضرت مولانا شاہ عبدالقادر اور حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز سے علم حدیث
حاصل کیا، تیرہ سال کی عمر میں تمام عقلی ونقلی
علوم کی تکمیل کرلی، چار ماہ اور چند روز میں قرآن مجید
حفظ کرلیا، والد ماجد کے انتقال کے وقت علامہ کی عمر اٹھائیس
سال تھی، علامہ بے پناہ علم وفضل اور شہرت و عظمت کے مالک تھے، لکھنوٴ
میں صدرالصدور تھے، ۱۸۵۷/ میں
تحریک میں شروع میں تامل کیا، مگر مولانا احمداللہ شاہ کی
ملاقات کے بعد صدرالصدور سے استعفیٰ دے کر تحریک میں شامل
ہوگئے،اور قائدانہ حصہ لیا، تحریک کے خاتمے پر روپوش رہے، پھرملکہ
وکٹوریہ کی عام معافی کے بعد مولانا اپنے وطن خیرآباد
پہنچ گئے،مگر دوروز کے بعد ہی ایک مخبر کی مخبری پر
گرفتار کئے گئے،اور عبوردریائے شور کی سزا تجویز کی گئی
اور تمام مال و اسباب حتی کہ کتابیں بھی ضبط کرلی گئیں،
مولانا کو جیل میں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی
دردناک تفصیل انھوں نے اپنی کتاب ”الشورة الندیہ“ (باغی
ہندوستان) میں لکھی ہے، آخر میں رہائی کاپروانہ آگیاتھا،
مگر پروانہ پہنچنے سے قبل ہی داعیٴ اجل کو لبیک کہا، ۱۲/صفر ۱۲۷۸ھ مطابق ۲۰/اگست ۱۸۶۱/ کو انتقال
ہوا۔
جنرل بخت خاں
سلطان پور کا رہنے والا تھا، تحریک کا سب سے
زبردست نقیب یہی جنرل بخت خان تھا، اس نے آخری دم تک
ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کی کوشش کی،
یہی وہ شخص ہے جس نے پورے ملک کے لوگوں میں انقلاب کی آگ
جلائی اور بڑی حد تک اس انقلاب کو منظم کرنے کی کوشش کی،
اللہ اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
مولانا شاہ
عبداللّٰہ
آپ میرے پڑدادا حضرت مولانا عبدالشکور آہ مظفرپوری
کے جدامجد ہیں، مولانا عبدالشکور آہ مظفرپوری حضرت شیخ الہند
مولانا محمود حسن دیوبندی کے اخص تلامذہ میں تھے، مولانا
عبداللہ کے لائق فرزند مولانا نصیرالدین کاشمار بہار کے مشہور ممتاز
علماء و شعراء میں ہوتا ہے، مولانا عبداللہ صاحب کے بارے میں ہمارے
خاندان میں یہ روایت مشہور ہے کہ وہ دہلی کے مضافات میں
رہتے تھے، اور بڑے صاحب علم وکمال تھے، ان کا خاندان برسوں قبل سمرقند سے ہجرت
کرکے دہلی میں آکر آباد ہوا تھا، ۱۸۵۷/ کے انقلاب کے بعدجب افراتفری مچی اور سلسلہ
داروگیر شروع ہوا، تو آپ چھپتے چھپاتے بہار پہنچے اور وہاں مظفرپور میں
اقامت اختیار کی، آپ کے خاندان کے کچھ لوگ اب بھی مظفرپور میں
آباد ہیں، لیکن خاندان کا وہ حصہ جو حضرت مولانا احمدحسن مورداوی
فرزند حضرت مولانا عبدالشکور آہ مظفرپوری سے چلا وہ اب بہار کے ضلع سمستی
پور کے منوروا شریف گاؤں میں آباد ہے، اور ان کی دینی
خدمات کاسلسلہ جاری ہے، ساتھ ہی حضرت منوروی کا روحانی
سلسلہ آپ کے خلف صالح اور جانشین حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب کے ذریعہ
جاری وساری ہے، اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قائم رکھے۔
شاہزادہ فیروز
شاہ
یہ صاحب عالم مرزا ناظم بخت کافرزند ارجمند تھا،
جس نے بابر کی یاد تازہ کردی، اپنے والد کے زیرنگرانی
علوم مروجہ کی تکمیل کی، اور فوجی تربیت حاصل کی،
اسے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی، جب ہندوستان واپس پہنچا تو
یہاں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، اس نے بھرپور حصہ لیا، اور مجاہدین
کی قیادت کی، دہلی میں ناکامی کے بعد، لکھنوٴ
میں مقابلہ کیا، لکھنوٴ خالی ہوا تو اپریل ۱۸۵۸/ میں مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کے پاس شاہجہاں پور
پہنچا،اور ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا، غرض اس نے ہر طرح سے اس ملک
کو بچانے کی کوشش کی، اور کسی موڑ پر بزدلی کا مظاہرہ نہیں
کیا، جب ہر طرف سے ناکامی ہوئی، تو بڑی تکلیفیں
اٹھانے کے بعد روس ہوتے ہوئے حجاز مقدس چلاگیا، اور مکہ معظمہ میں
اقامت اختیار کی، ۱۸۹۵/ میں
انتقال کیا۔ (شاندار ماضی: ۴/۴۶۲-۴۶۶)
یہ تو گنتی کے چند نام ہیں، جن کا
تذکرہ اس مختصر سے مقالہ میں کیاگیا، ورنہ نامعلوم کتنے گمنام
مجاہدین ہیں، جنھوں نے اس انقلاب میں حصہ لیا،اور اپنا
آخری قطرئہ خون بھی ملک وملت کے لئے نچھاور کردیا، جن کو رب
العالمین کے سوا کوئی نہیں جانتا، لیکن ان کی قربانیوں
اور خونِ شہادت کی لکیروں نے تاریخیں بنائیں، اور
قریب ایک صدی تک یہ تحریک آزادی کسی نہ
کسی درجہ میں جاری رہی، جس کے نتیجہ میں ۱۹۴۷/ میں اس ملک کو آزادی ملی،اوریہاں
کے لوگوں کو آزادی کی شام و سحر نصیب ہوئی، اور سب سے بڑی
بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں نے کسی دنیوی
مفاد کے لئے نہیں کیا، بلکہ محض اللہ کی رضا کے لئے عبادت سمجھ
کر کیا۔
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
تاریخ بتائے گی تم کو کیا ہم نے دیا
ہے عالم کو
$ $ $
---------------------------------
دارالعلوم ، شماره :
8-9،
جلد : 92 شعبان -
رمضان 1429ھ مطابق اگست -ستمبر ۲۰۰۸ء